میرا خاوند سگرٹ نوشی کا عادی ہے اوروہ سانس و دمہ کی تکلیف سے دوچار ہے ، ہمارے درمیان سگرٹ نوشی ترک کرنے کی وجہ سے کئي ایک مشکلات پیدا ہوچکی ہيں ۔
پانچ ماہ قبل میرے خاوند نے اللہ تعالی کے لیے دو رکعت نماز پڑھ کر یہ حلف اٹھایا کہ وہ اب کبھی بھی سگرٹ نوشی نہیں کرے گا ، لیکن حلف کے ایک ہفتہ بعد ہی وہ سگرٹ نوشی کرنے لگا ، اورمشکلات نے ہمیں پھر گھیر لیا تو میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کردیا ۔
لیکن اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی سگرٹ نوشی نہيں کرے گا ، لیکن مجھے اس پر مکمل بھروسہ نہیں ، اس ميں آپ کی صحیح راۓ کیا ہے اوراس کی قسم کا کفارہ کیا ہے اورآپ مجھے کیا نصیحت کرتے ہیں ؟
سگرٹ نوشی کے عادی خاوند سے طلاق
سوال: 13254
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سگرٹ نوشی خبیث اورحرام ہے ، اس کے نقصانات بہت زيادہ ہیں ، اوراللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم فرقان حمید میں فرمایا ہے :
اوروہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے ، آپ ان سے کہہ دیں تمہارے لیے اچھی اورپاکيزہ اشیاء حلال کی گئيں ہيں المائدۃ ( 4 )
اورسورۃ الاعراف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوۓ فرمایا گیا ہے :
اوروہ ان کے لیے اچھی اورپاکيزہ اشیاء حلال کرتا ہے اوران پر خبیث اشیاء حرام کرتا ہے الاعراف ( 157 ) ۔
اس میں کوئي شک نہیں کہ تمباکو سگرٹ خبیث اشیاء میں سے ہے تواس لیے آپ کے خاوند پر واجب ہے کہ وہ اسے ترک کردے اوراللہ سبحانہ وتعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہوا اس سے اجتناب کرے ، اور اللہ تعالی کے غضب کودعوت دینے والے اسباب سے بچے اوراپنے دین اورصحت کی سلامتی اورآپ سے حسن معاشرت کے لیے اسے ترک کردے ۔
اوراس کی قسم کے بارہ میں اس پر یہ واجب ہے کہ وہ قسم کا کفارہ ادا کرے اوراللہ تعالی کے سامنے دوبارہ سگرٹ نوشی کرنے کی توبہ کرے ۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ : دس مسکینوں کا کھانا یا پھر ان کے کپڑے ، یا ایک مومن غلام آزاد کرنا ، اوراس میں یہ کافی ہے کہ انہیں دن یا رات کا کھانا کھلا دے یا پھر ہر ایک کو نصف صاع اپنے ملک کی خوراک ادا کرے جوکہ تقریبا ڈیڑھ کلو بنتی ہے ۔
اورہم آپ کویہ وصیت کرتے ہیں کہ اگر وہ نمازی ہے اوراچھی سیرت کا مالک ہے اورسگرٹ نوشی ترک کردیتا ہے توآپ اس سے طلاق کا مطالبہ نہ کریں ، لیکن اگر وہ معصیت اورگناہ پر مصر رہے توپھر طلاق کے مطالبہ میں کوئی مانع نہیں ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
دیکھیں فتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ للشيخ ابن باز ( 2 / 668 )