پانچویں مہینہ میں اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟
روح ڈالے جانے کے بعد اسقاط حمل کروانا
سوال: 13319
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فقھاء مذاھب اسلامیہ کا اتفاق ہےکہ بچے کوروح ڈالے جانے کے بعد قتل کرنا حرام ہے ( یعنی حمل کے ایک سوبیس روز گزرنے کے بعد ) اوراسے کسی بھی حالت میں قتل کرناجائز نہيں ، لیکن اس صورت میں کہ حمل رہنے کی حالت میں ماں کی زندگي ختم ہونے کا خدشہ ہوتوجائز ہے ۔
اورروخ ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل میں فقھاء کرام کا اختلاف ہے ، لیکن روح ڈالے جانے کے بعد سب فقھاء کرام متفق ہیں کہ وہ ایک انسان کی شکل اختیار کرچکا ہے جسے احترام اورتکریم حاصل ہے اوراللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور یقینا ہم نے اولاد آدم کوبڑی عزت وتکریم سے نوازا الاسراء ( 70 )
اورایک دوسرے مقام پراللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
جوشخص کسی کوبغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یازمین میں فساد مچانے والا ہو ، قتل کرڈالے توگویا اس نے تمام لوگوں کوقتل کردیا ، اورجوشخص کسی ایک کی جان بچالے ، اس نے گویا تمام لوگوں کوزندہ کردیا المائدۃ ( 32 ) ۔
روح ڈالے جانے کے بعد اسقاط حمل کی حرمت میں فقھہ مالکیہ کے فقیہ ابن جزی رحمہ اللہ تعالی نے اجماع نقل کرتے ہوئے کہا ہے :
جب رحم منی کواپنے اندر قبض کرلے تواسے کوئي نقصان پہنچانا جائز نہيں ، اورجب بچہ کی شکل وصورت بننا شروع ہوجائے تواوربھی زيادہ شدید ناجائز ہے ، اورجب اس میں روح ڈالی دی جائے تواس کے عدم جواز میں اوربھی شدت آجاتی ہے کیونکہ بالاجماع یہ قتل نفس ہے ۔
دیکھیں : القوانین الفقھیۃ صفحہ ( 141 ) ۔
اوراسی طرح نھایۃ المحتاج میں بھی ہے کہ :
اورروح ڈالے جانے کا قرب بھی اسقاط حمل کی تحریم کوقوی کردیتا ہے کیونکہ یہ جرم ہے ، پھرجب وہ آدمی کی شکل وصورت اختیار کرلے اوروہ قبولیت تک پہنچ جائے تودیت واجب ہوگي ۔
دیکھیں : نھایۃ المحتاج ( 8 / 442 ) ۔
اورالبحرالرائق کے مؤلف کہتے ہيں کہ :
جس جنین کی کچھ شکل وصورت واضح ہوگئي ہووہ بچہ شمار ہوگا ۔
اورالبنايۃ کے مؤلف کہتے ہيں :
( جب جنین کی کچھ شکل وصورت واضح ہوچکی ہوتواس اے درپے ہونا جائز نہيں ، اورجب لوتھڑے اورخون سے تميز ہوجائے تووہ ایک جان بن چکا ہے ، اوراس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ بالاجماع اورنص قرآنی کےساتھ نفس وجان کی حرمت کی دیکھ بھال ہوگی )
تواس طرح ہیں ہمارے لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنین میں روح پیدا ہوجانے کے بعداسقاط ایسا جرم ہے جس کامرتکب ہونا جائزنہيں ، لیکن انتہائي شدید ضرورت کے پیش نظرجویقینی ضرورت ہونا کہ متوھمہ ، اورپھرجب اس ضرورت کا ثبوت بھی مل جائے ، وہ اس طرح کہ جب جنین کوباقی رکھنا ماں کی زندگی کےلیے خطرہ ہو تواسقاط حمل جائز ہوگا ۔
لیکن یہ یاد رکھیں کہ موجود دور میں جدید وسائل اورمیڈیکل تحقیقات کی بنا پرماں کی زندگي بچانا ممکن ہوچکا ہے لیکن بہت ہی ایسے نادرحالات ہیں جن میں ایسا ممکن نہيں ہوتا ۔ .
ماخذ:
دیکھیں : کتاب : احکام الجنین فی الفقہ الاسلامی تالیف : عمربن محمد بن ابراھیم غانم ۔