گزارش ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كى كيفيت نقاط ميں بيان كريں ؟
نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كى كيفيت
سوال: 13340
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قبلہ رخ ہونا:
1 – مسلمان شخص جب نماز كے ليے كھڑا ہو تو جہاں بھى ہو فرضى اور نفلى نماز ميں قبلہ كى طرف رخ كرے، قبلہ كى طرف رخ كرنا نماز كا ركن ہے، اس كے بغير نماز صحيح نہيں ہوتى.
2 – ميدان جنگ ميں لڑائى كرنے والے مجاہد كے ليے نماز خوف اور شديد قسم كى لڑائى ميں قبلہ رخ ہونا ساقط ہو جاتا ہے.
ـ اور اسى طرح ايسا كرنے سے عاجز شخص مثلا مريض يا كو شخص كشتى اور بحرى جہاز ميں ہو، يا پھر گاڑى اور ہوائى جہاز ميں سوار شخص كو جب وقت نكل جانے كا خدشہ ہو تو وہ ايسے ہى نماز ادا كر لے.
ـ سوارى اور جانور پر سوار ہو كر نفلى نماز اور وتر ادا كرنے والے سے بھى ساقط ہو جاتا ہے، اس كے ليے مستحب ہے كہ اگر ممكن ہو تو تكبير تحريمہ كے وقت قبلہ رخ ہو اور پھر سوارى جس طرف چاہے رخ كر لے.
3 – جو شخص كعبہ كو ديكھ رہا اوراس كا مشاہدہ كر رہا ہو اس كے ليے بعنيہ كعبہ كى طرف رخ كرنا واجب ہے، ليكن جو شخص اسے ديكھ نہيں رہا وہ كعبہ كى جہت كى طرف رخ كرے.
4 – اگر قبلہ كا رخ تلاش كرنے كى جدوجھد اور كوشش كے بعد آسمان ابر آلود ہونے يا كسى اور سبب كے باعث قبلہ رخ كى بجائے كسى اور طرف نماز ادا كر لى تو نماز جائز ہے، اور اس كا اعادہ نہيں كيا جائيگا.
5 – اگر دوران نماز كوئى معتبر اور ثقہ شخص آكر اسے قبلہ كا رخ بتائے تو اسے نماز كے دوران ہى قبلہ رخ ہونے ميں جلدى كرنى چاہيے، اور اس كى نماز صحيح ہو گى.
دوم: قيام:
6 – نمازى كے ليے كھڑے ہو كر نماز ادا كرنى واجب ہے، اور يہ نماز كا ركن ہے، ليكن درج ذيل پر نہيں:
نماز خوف اور شديد لڑائى ميں نماز ادا كرنے والے كے ليے سوار ہو كر بھى نماز ادا كرنا جائز ہے، اور وہ مريض جو قيام سے عاجز ہو اگر استطاعت ہو تو بيٹھ كر نماز ادا كرے، وگرنہ پہلو كے بل ليٹ كر، اور نفلى نماز ادا كرنے والے كے ليے بھى سوار ہو كر نماز ادا كرنى جائز ہے، يا اگر چاہے تو بيٹھ كر ركوع اور سجدہ اپنے سر كے اشارہ كے ساتھ كرے گا، اور اسى طرح مريض بھى، ليكن سجدہ ركوع سے كچھ نيچا ہونا چاہيے.
7 – بيٹھ كر نماز ادا كرنے والا اگر زمين پر سجدہ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو سجدہ كرنے كے ليے اپنے سامنے كوئى اونچى چيز نہيں ركھ سكتا، بلكہ وہ سجدہ ركوع سے كچھ نيچا كرےگا ـ جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں ـ.
كشتى يا بحرى جہاز اور ہوائى جہاز ميں نماز ادا كرنا:
8 – كشتى اور بحرى جہاز ميں فرضى نماز ادا كرنا جائز ہے، اسى طرح ہوائى جہاز ميں بھى.
9 – اگر اسے كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے ميں گرنے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے بيٹھ كر نماز ادا كرنا جائز ہے.
10 – بڑھاپے يا بدنى كمزورى كى بنا پر قيام ميں كسى ستون يا لاٹھى پر سہارا لينا جائز ہے.
قيام اور بيٹھنے كو جمع كرنا:
11 – نمازى كے ليے قيام الليل بغير كسى عذر كے كھڑے ہو كر اور بيٹھ كر نماز ادا كرنى جائز ہے، اور وہ دونوں حالتوں كو جمع بھى كر سكتا ہے، چنانچہ وہ بيٹھ كر قرآت كرے اور ركوع سے كچھ دير قبل اٹھ كر كھڑا ہو اور باقى مانندہ آيات كھڑا ہو كر پڑھے اور ركوع كر كے سجدہ كر لے، پھر دوسرى ركعت ميں بھى اسى طرح كرے.
12 – اور جب بيٹھ كر نماز ادا كرے تو چار زانو ہو كر بيٹھےگا، يا پھر جس طرح اسے آسانى ہو.
جوتے پہن كر نماز ادا كرنا:
13 – نمازى كے ليے ننگے پاؤں نماز ادا كرنا جائز ہے، اور اسى طرح جوتے پہن كر بھى نماز ادا كرنا جائز ہے.
14 – افضل یہ ہے کہ نمازی کے لیے ننگے پاؤں یا جوتے پہن کر جو بھی طریقہ آسان لگے اسی طرح نماز پڑھ لے؛ لہذا نماز کے لیے جوتے پہننے یا اتارنے کے لیے تکلف نہ کرے، چنانچہ ننگے پاؤں ہو تو ایسے ہی نماز پڑھ لے اور اگر جوتے پہنے ہوئے ہوں آسانی کی صورت میں جوتوں سمیت نماز ادا کر لے، اگر [دوران نماز] کوئی ضرورت پیش آ جائے تو جوتے اتار یا پہن بھی سکتا ہے۔"
15 – اور اگر جوتے اتارے تو انہيں اپنى دائيں جانب نہ ركھے، بلكہ بائيں جانب ركھے، اور اگر اس كے بائيں جانب كوئى نماز ادا كر رہا ہو تو بائيں جانب بھى نہ ركھے، بلكہ اپنے دونوں پاؤں كے درميان ركھے، ـ ميں كہتا ہوں: اس ميں بہت ہى لطيف اشارہ ہے كہ وہ جوتے اپنے سامنے نہ ركھے، كيونكہ يہ بے ادبى ہے اور سب نمازيوں كو اس سے خلل پيدا ہوتا ہے، آپ ديكھتے ہيں كہ سب لوگ اپنے جوتوں كى طرف نماز ادا كر رہے ہيں! ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ صحيح ثابت ہے.
منبر پر نماز ادا كرنا:
16 – امام لوگوں كو نماز كى تعليم دينے كے ليے كسى اونچى جگہ پر نماز ادا كر سكتا ہے، مثلا منبر پر چنانچہ وہ منبر يا اونچى جگہ پر ہى تكبير تحريمہ كہہ كر قرآت كرے اور ركوع بھى وہيں كرےگا، اور پيچھے كى جانب ہٹتا ہوا منبر سے اتر كر زمين پر سجدہ كرےگا، پھر واپس منبر پر آكر دوسرى ركعت ميں بھى پہلى ركعت كى طرح كرے.
سترہ كے پيچھے نماز ادا كرنے كا وجوب اور سترہ كے قريب ہونا:
17 – سترہ ركھ كر نماز ادا كرنى واجب ہے، اس ميں مسجد اور غير مسجد چھوٹے اور بڑے كا كوئى فرق نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" سترہ كے بغير نماز نہ پڑھو، اور اپنے سامنے سے كسى كو نہ گزرنے دو، اگر وہ انكار كرے تو اس سے جھگڑا كرو، كيونكہ اس كے ساتھ قرين ہے " يعنى شيطان ہے.
18 – سترہ كے قريب ہونا واجب ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا حكم ديا ہے.
19 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سجدہ والى جگہ اور ديوار كے مابين بكرى كے گزرنے جتنى جگہ تھى، چنانچہ جو شخص ايسا كرتا ہے اس نے واجب شدہ مسافت اختيار كى ـ ميں كہتا ہوں: اس سے ہم يہ معلوم كر سكتے ہيں كہ سوريا وغيرہ كى مساجد جو ميں نے ديكھى ہيں ميں جو لوگ مسجد كے وسط ميں ديوار يا ستون سے دور نماز ادا كرتے ہيں وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم اور فعل سے غفلت كى بنا پر ہے.
سترہ كى بلندى كى مقدار:
20 – سترہ زمين سے ايك يا دو بالشت اونچا ہونا ضرورى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں اگر كسى نے اپنے سامنے اونٹ كے كجاوہ كے پيچھے لكڑى جتنى كوئى چيز ركھى تو وہ نماز ادا كر لے، اس كے پيچھے سے گزرنے والے كى كوئى پرواہ نہ كرے "
مؤخرۃ كجاوے كے آخر ميں لكڑى كو كہتے ہيں، اور الرحل اونٹ كے ليے اسى طرح ہے جس طرح گھوڑے كى كاٹھى ہوتى ہے، اس حديث ميں اشارہ ہے كہ زمين پر خط اور لكير كھينچنا كفايت نہيں كرتا، اس كے متعلق مروى حديث ضعيف ہے.
21 – نمازى كو براہ راست سترہ كى طرف رخ كرنا چاہيے؛ كيونكہ سترہ كى طرف نماز ادا كرنے كا حكم ظاہر ہے، ليكن سترہ سے دائيں يا بائيں طرف ہونا كہ اس كى طرف ارادہ نہ كرے، ايسا كرنا ثابت نہيں.
22 – زمين ميں لگى ہوئى لكڑى وغيرہ يا درخت يا ستون كى طرف نماز ادا كرنا جائز ہے، اور اسى طرح چارپائى پر لحاف كے نيچے چھپ كر ليٹى ہوئى بيوى، اور سوارى كى طرف چاہے اونٹ ہى كيوں نہ ہو بھى نماز ادا كرنا جائز ہے.
قبروں كى طرف رخ كر كے نماز كرنا حرام ہے:
23 – مطلق طور پر كسى بھى قبر كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنى جائز نہيں، چاہے قبر نبى كى ہو يا ولى وغيرہ كى.
نمازى كے آگے سے گزرنے كى حرمت چاہے مسجد حرام ميں ہى ہو:
24 – اگر نمازى كے آگے سترہ ہو تو نمازى كے آگے سے گزرنا جائز نہيں اس مسئلہ ميں مسجد حرام يا كسى اور مسجد ميں كوئى فرق نہيں ہے، عدم جواز ميں سب برابر ہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" اگر نمازى كے آگے سے گزرنے والے كو اپنے اوپر گناہ كا علم ہو جائے تو اس كے ليے چاليس كھڑے رہنا نمازى كے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے "
يعنى: اس اور اس كے سجدہ والى جگہ كے آگے سے ـ اور وہ مطاف كے كونے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا سترہ كے بغير نماز ادا كرنا اور لوگوں كا آپ كے آگے سے گزرنے والى حديث صحيح نہيں ہے. اس ليے كہ اس ميں يہ نہيں كہ ان كے اور سجدہ والى جگہ كے درميان سے گزرا جا رہا تھا.
نمازى كے آگے سے گزرنے والے كو روكنا واجب ہے، چاہے مسجد حرام ميں ہى ہو.
25 – سترہ ركھ كر نماز ادا كرنے والے نمازى كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے اور سترہ كے درميان سے كسى كو گزرنے دے؛ كيونكہ حديث ميں ہے: " اور اپنے سامنے سے كسى كو نہ گزرنے دو …. " اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " تم ميں سے اگر كوئى شخص سترہ كے پيچھے نماز ادا كر رہا ہو اور كوئى شخص اس كے سامنے سے گزرنے لگے تو وہ اس كو سينہ پر دھكا مارے، اور اپنى استطاعت كے مطابق اسے منع كرے " اور ايك روايت ميں ہے: " اسے دو بار منع كرے، اور اگر وہ نہ ركے تو اس سے جھگڑا كرے كيونكہ وہ شيطان ہے ".
گزرنے والے كو روكنے كے ليے آگے كى طرف چلنا:
26 – اپنے سامنے سے كسى غير مكلف گزرنے والے مثلا جانور يا بچہ كو روكنے كے ليے ايك يا دو قدم آگے جانا جائز ہے، تا كہ وہ اس كے پيچھے سے گزر جائے.
نماز توڑنے والى اشياء:
27 – نماز ميں سترہ كى اہميت يہ ہے كہ وہ سترہ كے پيچھے نماز ادا كرنے اور اس كے آگے سے گزر كے نماز خراب كرنے والے كے مابين حائل ہو جاتا ہے، ليكن جو نمازى سترہ نہيں ركھتا اگر اس كے آگے سے كوئى بالغ عورت يا گدھا اور سياہ كتا گزر جائے تو اس كى نماز ٹوٹ جاتى ہے.
سوم: نيت.
28 – نمازى جو نماز ادا كرنا چاہتا ہے اس كى دل كے ساتھ نيت اور اس نماز كا تعين كرنا ضرورى ہے، مثلا ظہر يا عصر كى نماز، يا ظہر اور عصر كى سنتيں، اور يہ نماز كى شرط يا ركن ہے، ليكن زبان كے ساتھ نيت كرنا بدعت اور خلاف سنت ہے، آئمہ كرام ميں سے كسى نے بھى ايسا كرنے كا نہيں كہا.
چہارم: تكبير تحريمہ.
29 – پھر تكبير تحريمہ " اللہ اكبر " كہہ كر نماز شروع كرے، تكبير تحريمہ نماز كا ركن ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " نماز كى كنجى وضوء اور اس كى تحريم تكبير اور نماز كى تحليل سلام ہے " يعنى اللہ تعالى نے جو افعال حلال كيے ہيں ان كى تحريم، اور اسى طرح نماز كى تحليل يہ ہے كہ: اللہ تعالى نے نماز كے باہر جو افعال حلال كيے ہيں، اور تحليل اور تحريم سے مراد حرام كرنا اورحلال كرنا.
30 – امام كے ليے علاوہ كوئى اور نمازوں كى تكبير بلند آواز سے نہ كہے.
31 – اگر ضرورت ہو مثلا امام مريض ہو يا امام كى آواز كمزور ہو يا پھر نمازى زيادہ ہوں تو مؤذن كے ليے امام كى تكبير كو لوگوں تك پہنچانا جائز ہے.
32 – امام كى تكبير مكمل ہونے سے پہلے مقتدى تكبير نہ كہے.
رفع اليدين اور اس كى كيفيت:
33 – تكبير كے ساتھ يا تكبير كے بعد يا قبل رفع اليدين كرے، يہ سب سنت سے ثابت ہے.
34 – رفع اليدين كرتے ہوئے انگلياں كھلى ہوئى اور سيدھى ہوں.
35 – رفع اليدين كرتے وقت اپنى ہتھيلياں كندھوں كے برابر كرے، اور بعض اوقات اس ميں مبالغہ كرتے ہوئے كانوں كے كنارے كے برابر كرے ـ ميں كہتا ہوں: ليكن انگوٹھوں كے ساتھ كانوں كى لو چھونے كى سنت ميں كوئى دليل اور اصل نہيں ملتى، بلكہ ميرے نزديك تو يہ وسوسہ كے اسباب ميں سے ہے ـ.
ہاتھ باندھنے كى كيفيت:
36 – پھر تكبير تحريمہ كے بعد اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھے، يہ انبياء كرام كى سنت ميں سے ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اپنے صحابہ كرام كو اس كا حكم ديا، چنانچہ ہاتھ چھوڑ كر لٹكانا جائز نہيں ہے.
37 – اور داياں ہاتھ اپنى بائيں ہتھيلى كى پشت، اور گٹے اور كلائى پر ركھے.
38 – اور بعض اوقات دائيں ہاتھ كے ساتھ بائيں كو پكڑ كر ركھے، ليكن بعض متاخرين نے جو ہاتھ ركھنا اور پكڑنا دونوں كو ايك ہى وقت ميں جمع كيا ہے اس كى كوئى اصل نہيں ہے.
ہاتھ ركھنے كى جگہ:
39 – دونوں ہاتھ صرف سينے پر ركھے، اس ميں مرد اور عورت برابر ہيں. ـ ميں كہتا ہوں: سينے كے علاوہ كہيں اور ركھنا يا تو ضعيف ہے، يا پھر اس كى كوئى اصل نہيں.
40 – داياں ہاتھ اپنے پہلو پر ركھنا جائز نہيں ہے.
خشوع اور سجدہ والى جگہ پر ديكھنا:
41 – نمازى كو اپنى نماز ميں خشوع اختيار كرنا چاہيے، اور خشوع پيدا كرنے سے روكنے والى ہر چيز مثلا نقش و نگار والى ا شياء سے اجتناب كرے، اور اسى طرح اسے كھانے كى خواہش اور كھانا حاضر ہونے كى حالت ميں نماز ادا نہيں كرنى چاہيے، اور نہ ہى پيشاب اور پاخانہ روك كر نماز ادا كرے.
42 – قيام كى حالت ميں سجدہ والى جگہ پر نظر ركھے.
43 – دائيں اور بائيں التفات نہ كرے، كيونكہ التفات سے شيطان بندے كى نماز سے كچھ چھين ليتا ہے.
44 – آسمان كى طرف نظر اٹھانا جائز نہيں.
دعاء استفتاح:
45 – پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ بعض دعاؤں سے قرآت كى ابتدا كرے، يہ دعائيں بہت ہيں، جن ميں سے مشہور يہ ہے: " سٌبحانك الله وبحمدِك , وتبارك اسمٌك وتعالى جدُّك , ولا إله غيرك "اے اللہ تو پاك ہے اپنى تعريف كے ساتھ، اور تيرا نام بابركت ہے، اور تيرى شان بلند ہے، اور تيرے سوا كوئى معبود نہيں " اسے پڑھنے كا حكم ثابت ہے، اس ليے اس كى پابندى كرنى چاہيےـ جو شخص باقى دعائيں معلوم كرنا چاہتا ہے وہ " صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " صفحہ نمبر ( 91 – 95 ) طبع مكتبۃ المعارف رياض كا مطالعہ كرے.
پنجم: قرآت كرنا.
46 – پھر اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھے.
47 – سنت يہ ہے كہ بعض اوقات " أعوذ بالله من الشيطان الرجيم ؛ من همزه , ونفخه , ونفثه " ميں شيطان مردود سے اللہ كى پناہ ميں آتا ہوں، اس كے شر سے اس كے وسوسوں سے، اس كے تكبر سے اس كى پھونكوں سے. النفث يہاں مذموم شعر مراد ہيں.
48 – اور بعض اوقات " أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم ؛ من همزه , ونفخه , ونفثه " ميں شيطان مردود سے اللہ سميع و عليم كى پناہ ميں آتا ہوں، اس كے شر سے اس كے وسوسوں سے، اس كے تكبر سے اس كى پھونكوں سے.
49 – پھر جھرى اور سرى نماز ميں سرى طور پر " بسم اللہ الرحمن الرحيم " پڑھے.
سورۃ فاتحہ كى قرآت:
50 – پھر مكمل سورۃ فاتحہ كى تلاوت كرے، ـ بسم اللہ سورۃ ميں شامل ہے ـ سورۃ فاتحہ نماز كا ركن ہے، اس كے بغير نماز نہيں ہوتى، چنانچہ ہر ايك كو اسے حفظ كرنا چاہيے.
51 – جو شخص اسے پڑھنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو وہ يہ كلمات كہے: " سبحان الله , والحمد لله , ولا إله إلا الله , والله أكبر , ولا حول ولا قوة إلا بالله " اللہ پاك ہے، سب تعريفات اللہ كے ليے ہيں، اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ كے سوا كوئى زور اور كوئى طاقت نہيں.
52 – سورۃ فاتحہ كى قرآت ميں سنت يہ ہے كہ ايك ايك آيت كر كے پڑھى جائے، اور ہر آيت پر وقف كرے، چنانچہ بسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھ كر وقف كرے اور پھر دوسرى آيت الحمد للہ رب العالمين پڑھے، اور پھر وقف كرنے كے بعد تيسرى آيت الرحمن الرحيم پڑھے اور وقف كرے… اسى طرح آخرى تك.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى قرآت اسى طرح ہوتى تھى، ہر آيت كے آخر ميں وقف كرتے، اور بعد والى آيت كو اس كے ساتھ نہيں ملاتے تھے اگرچہ اس كا معنى پہلى آيت كے متعلقہ ہى ہو.
53 – مالك اور ملك دونوں قرآت پڑھنا جائز ہيں.
مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ كا پڑھنا:
54 – سرى اور جھرى نمازوں ميں بھى مقتدى پر سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، اگر امام كى قرآت نہ سن رہا ہو، يا پھر امام كے فارغ ہو كر خاموش ہونے كے بعد؛ تا كہ مقتدى اس وقت سورۃ فاتحہ كى قرآت مكمل كر سكے، اگرچہ اس خاموشى كو ہم سنت نہيں سمجھتے: ـ ميں كہتا ہوں: اس كے قائل كى دليل اور اس كا رد سلسلۃ احاديث ضعيفہ حديث نمبر ( 546 – 547 ) جلد ( 2 ) صفحہ ( 24 – 26 ) طبع دار معارف ميں بيان ہوا ہے.
سورۃ فاتحہ كے بعد قرآت كرنا:
55 – پہلى دونوں ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ يا كچھ آيات كى قرآت مسنون ہے، حتى كہ نماز جنازہ ميں بھى.
56 – سورۃ فاتحہ كے بعد بعض اوقات لمبى قرآت كرے، اور بعض اوقات سفر يا نزلہ يا بيمارى يا پھر بچے كے رونے كے باعث قرآت مختصر كرے.
57 – نمازوں كے اعتبار سے قرآت بھى مختلف ہو گى، چنانچہ نماز فجر ميں باقى چاروں نمازوں سے قرآت لمبى ہو گى، پھر ظہر پھر اور عشاء اور پھر مغرب ميں غالبا.
58 – اور قيام الليل ميں قرآت ان سب سے زيادہ لمبى ہو گى.
59 – سنت يہ ہے كہ دوسرى ركعت كى بنسبت پہلى ركعت ميں قرآت لمبى كى جائے.
60 – اور آخرى دو ركعتوں ميں پہلى دو ركعتوں كى بنسبت تقريبا نصف قرآت كم كرے ـ اگر اس كى تفصيل معلوم كرنا چاہيں تو صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 102 ) كا مطالعہ كريں.
ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت كرنا:
61 – ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت واجب ہے.
62 – بعض اوقات آخرى دو ركعتوں ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى اور سورۃ پڑھنى مسنون ہے.
63 – امام كے ليے جائز نہيں كہ سنت ميں وارد شدہ قرآت سے زيادہ لمبى قرآت كرے، كيونكہ اس كے پيچھے عمر رسيدہ، يا دودھ پيتے بچے كى ماں، يا ضرورتمند كے ليے اس ميں مشقت ہو سكتى ہے.
جھرى اور سرى قرآت كرنا:
64 – نماز فجر، جمعہ، نماز عيدين، نماز استسقاء، نماز كسوف، اور مغرب و عشاء كى پہلى دو ركعتوں ميں جھرى قرآت كرنا واجب ہے.
اور نماز ظہر، نماز عصر اور مغرب كى تيسرى اور عشاء كى آخرى دو ركعتوں ميں سرى قرآت كرنى چاہيے.
65 – امام كے ليے جائز ہے كہ بعض اوقات سرى نمازوں ميں بھى كوئى ايك آيت مقتديوں كو سنا ديا كرے.
66 – رات كى نماز اور وتر ميں بعض اوقات سرى قرآت كرے، اور بعض اوقات درميانى آواز كے ساتھ جھرى قرآت كرے.
قرآن ترتيل كے ساتھ پڑھنا:
67 – سنت يہ ہے كہ قرآن مجيد كى قرآت ترتيل كے ساتھ كى جائے، يہ نہيں …. اور نہ ہى تيزى كے ساتھ پڑھا جائے، بلكہ ايك ايك حرف كر كے اور خوش الحانى كے ساتھ تجويد كے معروف احكام كے دائرہ كے اندر رہتے ہوئے قرآت كى جائے، نہ تو اس طرح خوش الحانى كے ساتھ پڑھے جو بدعتى پڑھتے ہيں، اور نہ ہى موسيقى اور گانے كے قوانين اور اصول پر.
امام كى غلطى نكالنے كے ليے لقمہ دينا:
68 – اگر امام قرآت ميں غلطى كرے تو مقتدى كے ليے امام كو لقمہ دينا مشروع ہے.
ششم: ركوع كرنا:
69 – جب قرآت سے فارغ ہو تو كچھ دير كے ليے خاموش ہو جس ميں سانس درست ہو جائے.
70 – پھر تكبير تحريمہ ميں بيان كردہ طريقہ كے مطابق رفع اليدين كرے.
71 – اور ركوع كے ليے تكبير كہے، يہ تكبير واجب ہے.
72 – پھر اس طرح ركوع كرے كہ اس كے جوڑ صحيح طور پر بيٹھ جائيں، اور ہر عضو اپنى جگہ پكڑ لے، ركوع نماز كا ركن ہے.
ركوع كى كيفيت:
73 – ركوع ميں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر ركھے، اور ہاتھوں كى انگلياں كھول كر گھٹنوں پر اس طرح ركھے گويا كہ گھٹنے پكڑے ہوئے ہيں.
74 – اپنى كمر كو سيدھا پھيلائے كہ اگر اس پر پانى گرايا جائے تو ٹھر جائے.
75 – نہ تو سر كو جھكا كر ركھے، اور نہ ہى اٹھا كر بلكہ كمر كے برابر ركھے.
76 – اپنى دونوں كہنياں پہلؤوں سے دور ركھے.
77 – ركوع ميں تين بار يا زيادہ ( سبحان ربى العظيم ) كہے: ـ اس كے علاوہ بھى كئى اور دعائيں ہيں جو ركوع ميں كہى جاتى ہيں، ان ميں سے كچھ لمبى ہيں اور كچھ درميانى، اور كچھ چھوٹى، اس كے ليے صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 132 ) طبع مكتبۃ المعارف كا مطالعہ كريں.
اركان ميں برابرى كرنا:
78 – سنت يہ ہے كہ اركان كى طوالت ميں برابرى كى جائے، چنانچہ ركوع اور قيام، اور سجدہ اور دونوں سجدوں كے مابين جلسہ تقريبا برابر ركھے.
79 – ركوع اور سجود ميں قرآن مجيد پڑھنا جائز نہيں.
ركوع ميں اعتدال پيدا كرنا:
80 – پھر ركوع سے اپنا سر اٹھائے، يہ ركن ہے.
81 – ركوع سے اٹھ كر اعتدال ميں " سمع اللہ لمن حمدہ " كہے، يہ واجب ہے.
82 – ركوع سے اٹھ كر اعتدال كے وقت سابقہ طريہ كے مطابق رفع اليدين كرے.
83 – پھر اعتدال اور اطمنان كے ساتھ كھڑا ہو حتى كہ ہر ہڈى اپنى جگہ پكڑ لے، يہ ركن ہے.
84 – اس قومہ ميں " ربنا و لك الحمد " كہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى اذكار ہيں،اس كے ليے صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 135 ) كا مطالعہ كريں، يہ ہر نمازى پر واجب ہے، چاہے مقتدى ہى ہو، كيونكہ يہ قومہ كى دعاء اور ورد ہے، ليكن سمع اللہ لمن حمدہ اعتدال كى دعاء ہے، قومہ ميں ہاتھ باندھنے مشروع نہيں كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اگر اس كى تفصيل معلوم كرنى ہو تو صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم ميں استقبال القبلہ كا مطالعہ كريں.
85 – جيسا كہ بيان ہو چكا ہے اس قومہ اور ركوع كى طوالت ميں برابر كرے.
ہفتم: سجدہ كرنا:
86 – پھر تكبير اللہ اكبر كہے، يہ واجب ہے.
87 – اور بعض اوقات رفع اليدين كرے.
ہاتھوں لگا كر نيچے جانا:
88 – پھر سجدہ جاتے ہوئے گھٹنوں سے قبل نيچے ہاتھ لگائے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى كا حكم ديا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل سے بھى يہى ثابت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اونٹ كى طرح بيٹھنے سے منع فرمايا ہے.
وہ اس طرح كہ اونٹ اپنے گھٹنوں كے بل بيٹھتا ہے جو كہ اس كى اگلى جانب ہوتے ہيں.
89 – جب سجدہ كرے ـ يہ ركن ہے ـ تو اپنى ہتھيليوں كو كھول كر اس پر اعتماد كرے.
90 – ہاتھوں كى انگلياں ملا كر ركھے.
91 – انگليوں كو قبلہ رخ ركھے.
92 – اپنى ہتھيلياں كندھوں كے برابر ركھے.
93 – بعض اوقات كانوں كے برابر كرے.
94 – بازوں زمين سے بلند كر كے ركھے، يہ واجب ہے، اور كتے كى طرح نہ پھيلائے.
95 – ناك اور پيشانى زمين پر ٹكائے، يہ ركن ہے.
96 – اپنے دونوں گھٹنے بھى زمين پر ٹكائے.
97 – اور اسى طرح پاؤں كى كنارے بھى.
98 – اپنے پاؤں كھڑے كر كے ركھے. يہ سب كچھ واجب ہے.
99 – پاؤن كى انگليوں كا رخ قبلہ كى طرف كرے.
100 – دونوں ايڑيوں كو آپس ميں ملا كر ركھے.
سجدے ميں اعتدال كرنا:
101 – سجدے ميں اعتدال كرنا واجب ہے، وہ اس طرح كہ سجدے كے سارے اعضاء: پيشانى، ناك، دونوں ہتھيلياں، دونوں گھٹنے، اور دونوں پاؤں كى انگليوں پر برابر سہارا لے.
102 – جو شخص سجدہ ميں اس طرح اعتدال كرتا ہے، اس نے يقينى طور پر سجدہ اطمنان سے كيا، سجدہ ميں اطمنان ركن ہے.
103 – سجدہ ميں تين يا اس سے زيادہ بار " سبحان ربى الاعلى " كہے، اس كے علاوہ بھى سجدہ كى دعائيں ہيں جو آپ كو صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 145 ) ميں مل سكتى ہيں.
104 – سجدہ ميں كثرت سے دعاء كرنا مستحب ہے، كيونكہ يہ قبوليت كى كا مقام ہے.
105 – سجدہ اور ركوع طوالت ميں تقريبا برابر ہو جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.
106 – سجدہ زمين پر يا پيشانى اور زمين ميں كسى حائل كپڑا يا چٹائى يا بچھونا وغيرہ پر كرنا جائز ہے.
107 – سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنا جائز نہيں.
دونوں سجدوں كے مابين پاؤں بچھانا اور اقعاء كرنا:
108 – پھر سجدہ سے سر اٹھاتے ہوئے اللہ اكبر كہے، يہ واجب ہے.
109 – بعض اوقات رفع اليدين كرے.
110 – پھر اطمنان كے ساتھ بيٹھ جائے كہ ہر ہڈى اپنى جگہ پر واپس چلى جائے، يہ ركن ہے.
111 – اپنا باياں پاؤں بچھا كر اس پر بيٹھے، يہ واجب ہے.
112 – اپنا داياں پاؤں كھڑا كرے.
113 – انگليوں كو قبلہ رخ كرے.
114 – اور بعض اوقات اقعاء كرنا جائز ہے، وہ يہ كہ دونوں ايڑيوں اور پاؤں كے اوپر والے حصہ پر بيٹھے.
115 – اس جلسہ ميں " اللہم اغفرلى، وراحمنى، واجبرنى، وارفعنى، و عافنى و ارزقنى " كہے: اے اللہ مجھے بخش دے، اور مجھ پررحم فرما، اور ميرى حالت درست فرما، اور ميرے درجات بلند فرما، مجھے عافيت سے نواز، اور مجھے روزى عطا فرما.
116 – اور اگر چاہے تو يہ دعا پڑھے" رب اغفرلى، رب اغفر لى " اے پروردگار مجھے بخش دے، مجھے بخش دے.
117 – جلسہ طوالت كے اعتبار سے سجدہ كے برابر ہو.
دوسرا سجدہ:
118 – پھر تكبير اللہ اكبر كہے، يہ واجب ہے.
119 – بعض اوقات اس تكبير كے ساتھ رفع اليدين كرے.
120 – اور دوسرا سجدہ كرے، يہ بھى ركن ہے.
121 – جس طرح پہلے سجدہ ميں كيا تھا اس ميں بھى اسى طرح كرے.
جلسہ استراحت:
122 – جب دوسرے سجدے سے سر اٹھائے اور دوسرى ركعت كے ليے اٹھنا چاہے تو تكبير كہے. يہ واجب ہے.
123 – بعض اوقات رفع اليدين كرے.
124 – اٹھنے سے قبل باياں پاؤں بچھا كر اس پر بيٹھ جائے حتى كہ ہر ہڈى اپنى جگہ پر چلى جائے.
دوسرى ركعت:
125 – پھر دونوں بند ہاتھوں كو زمين پر ركھ كر ان پر سہارا ليتے ہوئے دوسرى ركعت كے ليے اٹھ جائے، ہاتھ اس طرح بند ہوں جس طرح آٹا گوندھنے والى بند كرتى ہے. يہ ركن ہے.
126 – اس ركعت ميں بھى پہلى ركعت كى طرح كرے.
127 – ليكن دعاء استفتاح نہيں پڑھےگا.
128 – دوسرى ركعت پہلى سے چھوٹى كرے.
تشھد كے ليے بيٹھنا:
129 – جب دوسرى ركعت سے فارغ ہو تو تشھد كے ليے بيٹھے، يہ واجب ہے.
130 – جيسا كہ بيان ہو چكا ہے دو سجدوں كے مابين بيٹھنے كى طرح باياں پاؤں بچھا كر بيٹھے.
131 – ليكن يہاں اقعاء يعنى دونوں پاؤں كھڑے كر كے بيٹھنا جائز نہيں.
132 – اپنى بائيں ہتھيلى دائيں گھٹنے اور ران پر ركھے، اور اس كى كہنى كا آخر ران پر ہونا چاہيے، اس سے دور نہ ہو.
133 – بائيں ہتھيلى بائيں گھٹنے اور ران پر پھيلا كر ركھے.
134 – ہاتھ پر سہارا لگا كر بيٹھنا جائز نہيں، خاص كر بائيں ہاتھ پر.
انگلى كو حركت دينا اور اس كى طرف ديكھنا:
135 – دائيں ہاتھ كى انگلياں بند كر كے ركھے، اور بعض اوقات اپنا انگوٹھا انگشت شہادت پر ركھے.
136 – اور بعض اوقات ان دونوں كا حلقہ بنا لے.
137 – انگشت شہادت كے ساتھ قبلہ كى جانب اشارہ كرے.
138 – اپنى نگاہ اس كى طرف كرے.
139 – تشھد كى ابتدا سے ليكر آخر تك انگلى كو حركت دے.
140 – بائيں ہاتھ كى انگلى سے اشارہ نہ كرے.
141 – سارى تشھد ميں يہى فعل كرے.
تشھد كے الفاظ:
142 – تشھد واجب ہے، اوراگر كوئى شخص تشھد بھول جائے تو وہ سجدہ سہو كرے گا.
143 – تشھد كے الفاظ سرى طور پر پڑھے گا:
144 – تشھد كے الفاظ يہ ہے:
" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ، السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ "
سب درود وظيفے اللہ ہى كے ليے ہيں، اور سب عجز و نياز اور سب صدقے و خيرات بھى اللہ ہى كے ليے ہيں، اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ پر سلام اور اللہ كى بركتيں اور اس كى رحمتيں ہوں، سلام ہو ہم پر اور اس كے نيك بندوں پر، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں "
ميرى كتاب ميں دوسرے الفاظ بھى مذكور ہيں، جو صحيح ثابت ہيں، ليكن ميں نے يہاں سب سے زيادہ صحيح درج كيے ہيں.
السلام على النبى: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد يہى سلام مشروع ہے، اور ابن مسعود، عائشہ، ابن زبير رضى اللہ تعالى عنہم كى تشھد ميں يہى سلام ثابت ہے، جو بھى اس كى تفصيل ديكھنا چاہے وہ صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ ( 161 ) طبعہ مكتبۃ المعارض الرياض كا مطالعہ كرے.
145 – اس كے بعد درود ابراہيمى پڑھے:
" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "
اے اللہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر رحم و كرم فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اوران كى آل پر رحم و كرم فرمايا، يقينا تو تعريف والا اور بڑى بزرگى والا ہے، اے اللہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر بركت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر بركت نازل فرمائى، يقينا تو تعريف كے لائق اور بڑى بزرگى والا ہے.
146 – اور اگر آپ مختصر كرنا چاہيں تو يہ پڑھيں:
" اللهم صل على محمد , وعلى آل محمد , وبارك على محمد وعلى آل محمد , كما صليت وباركت على إبراهيم , وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد "اے اللہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر رحم و كرم فرما، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل پر بركت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہيم عليہ السلام اور ان كى آل پر رحم و كرم كيا اور بركت نازل فرمائى، يقينا تو تعريف كے لائق اور بڑى بزرگى والا ہے"
147 – پھر اس تشھد ميں ثابت شدہ دعاؤں سے جو اسے اچھى لگے اس كے ساتھ اللہ سے دعاء كرے.
تيسرى اور چوتھى ركعت:
148 – پھر تكبير كہے، يہ واجب ہے، سنت يہ ہے كہ تكبير بيٹھے ہى كہے.
149 – بعض اوقات رفع اليدين كرے.
150 – پھر تيسرى ركعت كے ليے اٹھے، يہ بعد والى كى طرح ركن ہے.
151 – جب چوتھى ركعت كے ليے كھڑا ہونا چاہے تو اسى طرح كرے.
152 – ليكن اٹھنے سے قبل اپنے بائيں پاؤں پر اچھى طرح اعتدال كے ساتھ بيٹھ جائے، حتى كہ ہر ہڈى اپنے مقام پر چلى جائے.
153 – پھر دوسرى ركعت كے ليے اٹھنے كى طرح اپنے ہاتھوں پر سہارا لے كر اٹھ جائے.
154 – پھر تيسرى اور چوتھى ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت كرے يہ واجب ہے.
155 – بعض اوقات اس كے بعد ايك دو آيات پڑھ ليا كرے.
قنوت نازلہ اور اس كى جگہ:
156 – اگر مسلمانوں پر كوئى مصيبت نازل ہوئى ہو تو ان كے ليے دعاء قنوت كرنا مسنون ہے.
157 – دعاء قنوت كى جگہ ركوع كے بعد" ربنا و لك الحمد " والى دعاء پڑھنے كے بعد ہے.
158 – اس كے ليے كوئى مخصوص اور راتب دعاء نہيں، بلكہ جو بھى دعاء مناسب ہو كر سكتا ہے.
159 – يہ دعاء ہاتھ اٹھا كر كرے.
160 – اگر امام ہے تو بلند آواز سے دعاء كرے.
161 – مقتدى اس دعاء پر آمين كہينگے.
162 – جب دعاء سے فارغ ہو تو تكبير كہہ كر سجدہ كرے.
قنوت وتر اور اس كى جگہ، اور اس كے الفاظ:
163 – بعض اوقات وتر ميں قنوت كرنا مسنون ہے.
164 – اس كى جگہ قنوت نازلہ كے برخلاف ركوع سے قبل ہے.
165 – قنوت وتر ميں درج ذيل دعاء كرے:
" اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت , وتولني فيمن توليت , وبارك لي فيما أعطيت , وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تباركت ربنا وتعاليت , ولا منجا منك إلا إليك "
اے اللہ جن لوگوں كو تو نے ہدايت دى ان ميں مجھے بھى ہدايت دے اور جن كو تو نے معافى دى ان ميں مجھے بھى معافى دے، اور جن كى تو نے ذمہ دارى لى مجھے بھى ان ميں شامل فرما، اور جو تو نے مجھے عطا كيا اس ميں بركت عطا فرما، اور تو نے جو فيصلہ كر ركھا ہے اس كى تكليف سے مجھے محفوظ ركھ، يقينا تو فيصلہ كرنے والا ہے، اور تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كيا جا سكتا، جسے تو دوست بنائے وہ ذليل نہيں ہوتا، اور جس كو تو دشمن بنا لے وہ ہرگز عزت نہيں پا سكتا، اے ہمارے رب تو بابركت اور بلند و بالا ہے"
166 – يہ دعاء رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سكھائى ہے اس ليے جائز ہے،اور صحابہ كرام سے اس كا ثبوت ملتا ہے.
167 – پھر ركوع كر كے دو سجدے كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.
آخرى تشھد اور تورك كرنا:
168 – پھر آخرى تشھد كے ليے بيٹھے.
169 – اس تشھد ميں بھى پہلى تشھد والے كام ہى كرے.
170 – صرف اتنا ہے كہ اس ميں تورك كر كے بيٹھے، يعنى اپنا باياں پاؤں دائيں پنڈلى كے نيچے سے نكال لے.
171 – اور داياں پاؤں كھڑا كر كے ركھے.
172 – بعض اوقات پاؤں بچھانا بھى جائز ہے.
173 – بائيں ہتھيلى سے اپنے گھٹنے كو پكڑے اور اس پر سہارا لے.
نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا اور چار اشياء سے پناہ طلب كرنا واجب ہے:
174 – اس تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود بھيجنا واجب ہے، جيسا كہ ہم پہلى تشھد ميں ہم اس كے بعض الفاظ بيان كر چكے ہيں.
175 – اللہ تعالى سے چار اشياء سے پناہ مانگتے ہوئے يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "
اے اللہ بيشك ميں جہنم اور قبر كے عذاب سے تيرى پناہ ميں آتا ہو، اور زندگى اور موت اور مسيح الدجال كے فتنہ كے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں "
زندگى كے فتنہ سے مراد انسان كو زندگى ميں پيش آنے والى دنياوى آزمائيش اور شہوات و خواہشات ہيں.
اور موت كے فتنہ سے مراد قبر ميں منكر اور نكير كا سوال و جواب كرنا ہے.
اور مسيح الدجال كے فتنہ سے مراد يہ ہے كہ: عادت سے ہٹ كر وہ اعمال ہيں جو دجال كے ہاتھ پر وقوع ہونگے، جس كى بنا پر بہت سے لوگ اس كے الوہيت كے دعوى سے گمراہ ہو كر دجال كے پيچھے چل نكليں گے.
سلام پھيرنے سے قبل دعاء كرنا:
176 – پھر اس كے جى ميں جو آئے اپنے ليے مانگے، اور وہ دعاء كرے جو كتاب و سنت ميں ثابت ہے، اور يہ دعائيں بہت اچھى اور زيادہ ہيں، اگر ان ميں سے اسے كچھ ياد نہ ہو تو پھر اسے دين و دنيا كى بھلائى كے ليے جو دعا آسان لگے وہ كرے.
سلام پھيرنا اور اس كى اقسام:
177 – پھر اپنے دائيں جانب سلام پھيرے، يہ نماز كا ركن ہے، سلام اس طرح پھيرے كہ اس كے دائيں رخسار كى سفيدى نظر آنے لگے.
178 – اور پھر اپنے بائيں جانب سلام پھيرے كہ بائيں رخسار كى سفيدى نظر آنے لگے.
179 – امام سلام بلند آواز كے ساتھ كہے.
180 – سلام كے كئي ايك الفاظ ہيں:
پہلا: السلام عليكم و رحمۃ اللہ و بركاتہ. دائيں جانب كہے، اور بائيں جانب" السلام عليكم و رحمۃ اللہ كہے.
دوسرا: اس ميں و بركاتہ نہ كہے.
تيسرا: دائيں جانب السلام عليكم و رحمۃ اللہ كہے، اور بائيں جانب السلام عليكم كہے.
چوتھا: صرف سامنے كى جانب ہى ايك بار سلام پھيرے، ليكن اس ميں كچھ دائيں جانب مائل ہو.
ہمارے مسلمان بھائى مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كا طريقہ ملا ميں نے اسے آپ كے سامنے ركھنے كى كوشش كى، تا كہ آپ كے سامنے نماز نبوى كا طريقہ واضح ہو جائے، اور آپ كے ذہن ميں اس طرح بيٹھ جائے جس طرح آپ نے اسے بعينہ اپنى آنكھوں سے ديكھا ہو.
اگر اس طريقہ كے مطابق نماز ادا كرينگے جو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كا طريقہ آپ كے سامنے ركھا ہے تو مجھے اللہ تعالى سے اميد ہے كہ وہ آپ كى اس نماز كو شرف قبوليت بخشےگا، كيونكہ اس طرح آپ نے حقيقتا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے ديكھا ہے"
ثابت كر دكھايا.
پھر اس كے بعد يہ بھى ہے كہ آپ نماز ميں اپنا دل كو حاضر اور خيالات كو يكجا اور خشوع و خضوع پيدا كرنا مت بھوليں، كيونكہ بندے كا اپنے معبود اللہ عزوجل كے سامنے كھڑے ہونے كا سب سے بڑا مقصد اور غايت يہى ہے.
جس قدر آپ اس خشوع و خضوع كو جو ميں نے آپ كے سامنے بيان كيا ہے اپنے اندر پيدا كرينگے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى
ماخذ:
كتاب: تلخيص صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم من تكبير الى التسليم كانك تراھا. تاليف علامہ الشيخ محمد ناصر الدين الالبانى رحمہ اللہ