ايك مسلمان بھائي ايك شوز ہاؤس پر ملازم ہے اور دوكان كےمالك مسلسل ريٹ ميں تبديلي كرتےرہتےہيں، مثال كےطور پر: ايك شخص پچاس ڈالر كا سامان خريدتا ہے، اور دوسرے شخص كو يہي مال نوے ڈالر كا ديا جاتا باوجود اس كےكہ مال پر ريٹ ساٹھ ڈالر واضح كيا گيا ہے، تو كيا اس طريقہ سے ريٹ ميں تبديلي كرنا جائز ہےاور كيا يہ تجارت ميں عدل ہے ؟
ايك چيز ہي كئي گاہكوں كومختلف ريٹ ميں فروخت كرنا
سوال: 13341
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بائع كو چاہيےكہ وہ مال اس ريٹ پر فروخت كرے جوماركيٹ كےبرابر ہو، اگر وہ ماركيٹ كےريٹ كےعلاوہ فروخت كرتا ہے تو اس كي دو حالتيں ہيں:
پہلي حالت:
كہ ماركيٹ كےريٹ سےكم قيمت پر سامان فروخت كرے، مثلا: اگر وہ اپنےكسي دوست كودينا چاہے، تواس ميں كوئي حرج نہيں يہ جائز ہے، اور بائع كوايسا كرنےسے منع نہيں كيا جاسكتا، ليكن اگر وہ دوسرے تاجروں كونقصان دينےكےليےايسا كرے توايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( نہ خود نقصان اٹھائے اور نہ كسي كو نقصان دے ) ابن ماجہ حديث نمبر ( 2340 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے ارواء الغليل ( 896 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوسري حالت:
ماركيٹ كےريٹ سے زيادہ ريٹ ميں فروخت كرے:
اگر تو ريٹ ميں كچھ زيادتي ہو مثلا ماركيٹ ميں بيس ہے اور وہ بائيس كا بيچے تو يہ جائز ہےيہ لوگوں كي عادت ہےكہ اس ميں كوئي پكڑ نہيں كرتا.
ليكن اگر ريٹ ميں فرق زيادہ ہو، خريدار كو ريٹ معلوم ہي نہيں ، مثلا جوچيز ساٹھ كي ہے وہ نوے كي بيچے ( جيسا كہ سوال ميں مذكور ہے ) توايسا كرنا جائز نہيں بلكہ يہ دھوكہ اورفراڈ ہے، اورخريدار كوجب علم ہو جائے تواسے اختيار حاصل ہے كہ وہ چيز واپس كردے، اسے علماء كرام خيار غبن ( دھوكہ ) كا نام ديتےہيں. ديكھيں: المغني ( 4 / 18 ) .
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايسے تاجر كا حكم كيا ہے جو لوگوں كو چيزيں مختلف ريٹ پر فروخت كرتا ہے حالانكہ چيز ايك ہي ہے، مثلا كسي كو تو وہي چيز دس ميں اور كسي كو بيس اور كسي تيسرے شخص كو پانچ ميں فروخت كرتا ہے تو كيا كيا ايسا كرنا جائز ہےيا نہيں؟
شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:
اگر توقيمت ميں اختلاف كا سبب ماركيٹ ميں اختلاف ہے اور اس مال كي قيمت ايك دن زيادہ ہوجاتي اور دوسرے دن كم تواسے ماركيٹ كےريٹ كےمطابق فروخت كرنےميں كوئي حرج نہيں اور نہ ہي اس ميں كوئي ممانعت ہے، ليكن اگر كسي چيز كي قميت ميں اختلاف گاہك كي ہوشياري كي بنا پر ہے كہ گاہك خريداري ميں ہوشيار ہےيانہيں تودوكاندار ديكھتا ہے كہ گاہك اتنا ہوشيار نہيں تووہ اس پر غالب ہوجاتا ہےاور اگر ہوشيار ہو تو قيمت ميں كمي كرديتا ہے تويہ جائز نہيں اس ليے كہ يہ دھوكہ ميں شامل ہوتا ہے اور خير وخواہي كےخلاف ہے.
حالانكہ حديث ميں بيان ہوا ہےكہ تميم داري رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( دين خير خواہي ہے، صحابہ نےعرض كيا اے اللہ تعالي كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كس كےليے؟ تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: اللہ تعالي كےليے اور اس كي كتاب كےليے اور اس كےرسول كےليے اور مسلمانوں كے اماموں كےليے اور عام مسلمانوں كےليے ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 55 ) .
اور جس طرح وہ دوكاندار اس پر راضي نہيں كہ اس كےساتھ كوئي بھي ايسا كرے توپھر وہ خود اس بات پر كس طرح راضي ہے كہ وہ اپنے مسلمان بھائيوں كےساتھ ايسا سلوك كرے؟ !
لھذا انسان جہاں ہےاس جگہ كےمطابق اس كي فروخت ہوني چاہيے، اور اسے چاہيے كہ وہ گاہك كي كنند ذہني كے سبب ايك كوكچھ ريٹ اور دوسرے كو كچھ ريٹ پر اشياء فروخت نہ كرے.
اور رہا يہ مسئلہ كہ وہ اپنےكسي دوست اور ساتھيوں كو قيمت سے كچھ كمي كردے تو اس ميں كوئي حرج نہيں، يا پھر سامان ماركيٹ كي ريٹ كے مطابق فروخت كردے، پھر كوئي اور شخص آئےجو اسے ريٹ ميں كمي اور اس سے سودے بازي كرے تويہ اسے كوئي نقصان نہيں دےگا، اس ليے كہ وہ عادي ريٹ سے باہر نہيں گيا. اھ .
ديكھيں: فتاوي للتجار ورجال الاعمال ( 42 ) .
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب