ان آخرى برسوں كے اندر ديكھنے ميں آيا ہے كہ فيملياں خليجى ممالك يا عرب يا ايشيائى يا يورپى كفار ممالك يا امريكہ كا سفر كرنے لگى ہيں، اور اس سفر كے ليے اپنى اور بيوى بچوں كى تصاوير بھى بنوانا ضرورى ہيں، ہمارے علم كے مطابق تو علماء كرام كا فتوى ہے كہ ضرورت كے بغير تصوير اتروانى جائز نہيں، تو كيا سياحتى سفر ايسى ضرورت شمار ہوتى ہے جو اسے اپنى اور بيوى بچوں كى تصوير اتروانا مباح كرتى ہو ؟
اس كے ساتھ ساتھ ان ممالك كا سياحتى سفر كرنے ميں مال و دولت اور وقت كا ضياع ہے، اور مال كثرت سے مباح اشياء بلكہ بعض اوقات تو مكروہ اور حرام كاموں ميں بھى كثرت سے مال خرچ كيا جاتا ہے، اور اسى طرح اس ميں عورتوں كا ( كلى يا جزى طور پر ) بے پرد ہونا بھى شامل ہے، اور ان ممالك كا سفر كرنے والوں كا ايسى برائيوں كا مشاہدہ بھى كرنا ہوتا ہے، جس كى انہيں اپنے ممالك ميں مشاہدہ كرنے كى عادت نہيں ہوتى، جس كے باعث بعد ميں ان كے ليے حرام كاموں كا ارتكاب اور برائى كو ديكھنا آسان ہو جاتا ہے.
آپ سے گزارش ہے كہ اس غرض سے تصوير اتروانے كے حكم كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں.
اور اسى طرح ان ممالك ميں جہاں اعلانيہ طور پر برائى ہوتى ہے اور كسى كو اس برائى سے منع كرنے كى استطاعت نہيں ہوتى اور نہ ہى ان برائيوں سے آنكھيں بند كر سكتا ہے، وہاں جا كر سير و سياحت كرنے كا حكم بھى بتائيں، اور آپ ايسے لوگوں كو كيا نصيحت كرتے ہيں جو خليجى يا عرب ممالك كى سير و سياحت كى غرض سے تصوير اتروانے ميں كوئى حرج نہيں سمجھتے، آيا يہ جائز ہے ؟
سير و سياحت كے ليے سفر
سوال: 13342
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عورتوں كى تصاوير بنوانا مطلقا جائز نہيں، كيونكہ اس كے نتيجہ ميں فتنہ و شر پيدا ہوتا ہے، جو اس كى فى ذاتہ حرمت ميں اور بھى شدت كا باعث ہے، اس ليے سفر يا كسى اور غرض كے ليے عورتوں كى تصاوير اتروانى جائز نہيں.
كبار علماء كميٹى كى جانب سے اس كى حرمت كا فيصلہ صادر كيا جا چكا ہے، اور كفار ممالك اور فحاشى سے بھرے ہوئےممالك كا سفر كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں فتنہ اور شر ہے، اور كفار كے ساتھ ميل جول، اور برائيوں كا مشاہدہ ہونے كے ساتھ ساتھ اس سے دل بھى متاثر ہونے سے نہيں رہتا، مگر اہل علم نے كچھ حدود و قيود اور بالكل تنگ اور كم حالات ميں ان ممالك كى جانب سفر كرنے كى اجازت دى ہے، اور وہ حدود و قيود درج ذيل ہيں:
1 – كسى ايسے علاج كى ضرورت پيش آجائے جو مسلمان ممالك نہ پايا جاتا ہو.
2 – ايسى تجارت جو سفر كے بغير نہ ہوتى ہو.
3 – كوئى ايسا علم حاصل كرنا، جس كى مسلمانوں كو ضرورت ہو اور وہ مسلمان ممالك ميں نہ پايا جائے.
4 – اسلام كى نشر و اشاعت اور دعوت الى اللہ كا كام كرنے كے ليے.
ان سب حالات ميں بھى شرط يہ ہے كہ سفر كرنے والا شخص اپنے دين كے اظہار پر قادر ہو، اور اپنے عقيدہ كو مضبوط ركھنے والا، اور بدعات اور فتنہ والى جگہوں سے اپنے آپ كو دور ركھنے والا ہو.
ليكن صرف سير و سياحت اور تفريح، دل بہلانے كى غرض سے ان ممالك كا سفر كرنا تو بہت زيادہ اور شديد قسم كا حرام ہے.
اور اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ مجھے اور آپ سب مسلمانوں كو اپنے محبت اور رضا و خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
ماخذ:
الشيخ صالح بن فوزن الفوزان ممبر كبار علماء كميٹى سعودى عرب اور ممبر مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب