اگر كسى بھائى كى تجويد باقى سب اشخاص سے بہتر اور اچھى ہو ليكن وہ ركوع اچھى طرح نہ كرتا ہو تو كيا اس كے ليے امام بننا جائز ہے ؟
اچھى طرح ركوع نہ كرنے والے شخص كى امامت
سوال: 13360
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
لوگوں ميں امامت كا حقدار وہ شخص ہے جسے قرآن مجيد سب سے زيادہ آتا ہو، اور وہ نماز كے احكام كو زيادہ سمجھتا ہو، اور نماز كو صحيح ادا كرنے ميں سب سے زيادہ حريص ہو اور اس كى كوشش كرے، اس ميں نماز كے اركان اور واجبات كى صحيح طرح ادائيگى شامل ہے.
ليكن جو شخص نماز صحيح طرح ادا نہ كرے، اور نماز كے اركان ميں سے كوئى ركن ركوع وغيرہ كو صحيح ادا نہ كرے تو اس مسئلہ ميں تفصيل ہے:
ـ اگر تو كسى سبب مثلا بيمارى وغيرہ كى بنا پر قيام يا ركوع يا سجود كرنے سے عاجز ہو تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:
راجح يہ ہے كہ اس كى امامت صحيح ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
” قوم كى امامت وہ كرائے جو ان ميں سب سے زيادہ قرآن كا حافظ ہو ”
امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك بھى يہى ہے.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 264 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے اختيار كيا ہے جيسا كہ الانصاف ميں منقول ہے.
ديكھيں: الانصاف ( 4 / 374 ).
ـ ليكن اگر اس كا سبب جہالت، يا پھر اصرار ہو تو اسے اس كى غلطى بيان كى جائے، اگر تو وہ قبول كرتے ہوئے غلطى ٹھيك كر لے تو صحيح وگرنہ اس كے ليے مسلمانوں كى امامت كروانا صحيح نہيں، چاہے وہ حافظ قرآن ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ اركان نماز ميں سے ايك ركن قيام ترك كرنے كى بنا پر اس كى نماز باطل ہے.
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (1875 ) كا جواب ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات