ايك لڑكى كا والد كسى دوسرے ملك گيا اور اس كے جانے كے بعد دادے نے لڑكى كى رضامندى كے بغير ہى شادى كر دى، اور والد كو بھى نہ بتايا، دادے كا خيال تھا كہ والد اس پر موافق ہے، ليكن جب والد كو علم ہوا تو اس نے اس شادى سے انكار كر ديا، اور اس سے طلاق لينے كا عزم كيا.
اور جب واپس آيا تو اس نے ارادہ بدل ديا اور لڑكى نے بھى اس شادى كو تسليم كر ليا، ليكن يہ شادى كے بہت طويل عرصہ كے بعد، كيا يہ عقد نكاح صحيح ہے، اور جو مدت وہ اكٹھے رہے اس كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا دادے كو لڑكى كے باپ كے علم كے بغير لڑكى كى شادى كرنے كا حق حاصل ہے حالانكہ لڑكى اس شادى سے انكار بھى كر رہى ہو، اور اب جبكہ شادى كو كئى برس بيت چكے ہيں ان پر كيا لازم آتا ہے ؟
باپ كى لاعلمى ميں دادا اپنى پوتى كى شادى نہيں كر سكتا
سوال: 133979
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نكاح كے ليے كچھ شروط ہيں ان كے بغير نكاح صحيح نہيں ہوتا:
ان شروط ميں خاوند اور بيوى كى رضامندى شامل ہے؛ اس ليے باپ اور نہ ہى كسى دوسرے ولى كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ عاقل و بالغ رشيدہ عورت كى اجازت كے بغير اس كا نكاح كر دے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” شادى شدہ اپنے آپ كى ولى سے زيادہ حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كے متعلق اجازت لى جائيگى، اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).
خنساء بنت خذام انصاريہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ شادى شدہ ( يعنى طلاق يافتہ يا بيوہ ) تھيں تو ان كے والد نے ان كى پسند كے بغير شادى كر دى، چنانچہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5139 ).
اس ليے اگر عورت كى رضامندى كے بغير نكاح ہو تو يہ نكاح صحيح نہيں ہو گا.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نكاح صحيح ہونے كى شروط ميں خاوند اور بيوى كا رضامند ہونا شامل ہے، اگر وہ دونوں يا كوئى ايك راضى نہ ہو تو نكاح صحيح نہيں ہوگا ” انتہى
ديكھيں: فتاوى و رسائل محمد بن ابراہيم آل شيخ ( 10 / 64 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس مسئلہ ميں راجح قول يہى ہے كہ والد اور كسى اور كے ليے حلال نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے شادى كرنے پر راضى نہ ہو چاہے وہ كفو بھى ہو .
اس بنا پر آدمى كا اپنى بيٹى كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہوگا، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ.
اس راجح قول كے مطابق والد كا اپنى بيٹى كا كسى ايسے شخص سے شادى كرنا جسے وہ نہيں چاہتى فاسد ہوگا اور عقد نكاح بھى فاسد ہوگا ” انتہى مختصرا
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 129 ).
اور نكاح صحيح ہونے كے ليے يہ بھى شرط ہے كہ:
عقد نكاح ولى يا اس كا وكيل كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا “
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) اسے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1818 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
عورت كا باپ اولياء ميں سب سے پہلے ہے اس ليے باپ كى موجودگى ميں كسى اور ولى كے ليے باپ كى اجازت كے بغير بيٹى كا نكاح كرنا جائز نہيں ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (45513 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس ليے اگر كسى دوسرے نے ـ دادا يا كسى اور نے ـ باپ كى رضامندى يا اس كے علم كے بغير نكاح كر ديا تو يہ نكاح صحيح نہيں ہوگا، كيونكہ يہ نكاح ولى كى رضامندى كے بغير ہوا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 90 ) اور المغنى ( 7 / 21 ) كا مطالعہ كريں.
اس بنا پر ہونے والا يہ نكاح دو سبب كى بنا پر صحيح نہيں ہے:
ايك تو بيوى كى رضامندى نہيں تھى.
اور دوسرا يہ نكاح ولى كے بغير ہوا ہے.
اس ليے اب جبكہ ولى اور عورت دونوں راضى ہو چكے ہيں ان پر يہ لازم آتا ہے كہ وہ يہ نكاح دوبارہ كريں، اور اس لڑكى كا والد خاوند كو كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا اور خاوند كہے ميں نے قبول كيا، اور اس ميں دو گواہ بھى ضرور ہوں، تو اس طرح يہ غلط كام صحيح ہو جائيگا، اور اس عورت كا اس دوسرے صحيح نكاح پر مہر ہوگا، اور خاوند اور بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ كسى بھى مہر پر متفق ہو جائيں، چاہے وہ قليل ہو يا كثير، جبكہ عورت اس پر راضى ہو.
رہا مسئلہ وہ مدت جو انہوں نے اكٹھى گزارى ہے، ہم اميد كرتے ہيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى انہيں معاف فرمائيگا، اور اگر انہيں اس عرصہ ميں اولاد بھى حاصل ہوئى ہے تو يہ اولاد شرعى ہے كيونكہ ان كے خيال ميں يہ عقد نكاح صحيح تھا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب