كيا كسى شخص كے ليے طلاق يا وفات كے بعد چچى يا مامى سے شادى كرنى جائز ہے ؟
چچى يا مامى سے شادى كرنے كا حكم
سوال: 134237
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” اس ميں كوئى حرج نہيں، جس طرح بھابھى سے شادى كى جا سكتى ہے، اسى طرح كسى شخص كے ليے چچى يا مامى سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مقصود يہ ہے كہ اگر چچى يا مامى اور آپ كے مابين رضاعت يا قرابت نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ مامى اور چچى والد كى بيوى كى طرح نہيں ہے.
بعض لوگ يہ گمان كرتے ہيں كہ مامى كى حالت بھابھى سے مختلف ہے، حالانكہ يہ غلط ہے، كيونكہ بھابھى اور مامى اور چچى يہ سب اجنبى اور غير محرم ہيں، اگر ان كا خاوند فوت ہو جائے يا اسے طلاق ہو جائے تو عدت گزرنے كے بعد اس سے شادى كرنى جائز ہے، جس طرح بھابھى سے شادى ہو سكتى ہے.
كيونكہ بھائى تو زيادہ قريب ہے، اس ليے اگر كسى كا بھائى فوت ہو جائے يا وہ اسے طلاق دے دے تو عدت گزرنے كے بعد اس كا بھائى بھابھى سے شادى كر سكتا ہے، تو اسى طرح مامى اور چچى سے بھى بالاولى جائز ہوگى؛ كيونكہ يہ تو بھائى سے دور كے رشتہ دار ہيں، الا يہ كہ ان كے مابين كوئى رضاعت يا ايسى رشتہ دارى ہو جو حرمت كا تقاضا كرتى ہو تو يہ اور بات ہوگى.
ليكن صرف يہ كہ وہ چچى ہے يا پھر مامى تو اس سے بھائى كے بيٹے اور بہن كے بيٹے پر مامى اور چچى حرام نہيں ہو گى ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ .
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1549 )