صحيح مسلم ميں ہے كہ:
صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے نماز ميں تاخير كرنے والے آئمہ سے لڑائى كرنے كى اجازت طلب تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں جب تك وہ نماز قائم كرتے رہيں "
چنانچہ ہم نماز ميں تاخير كا معنى كس طرح سمجھ سكتے ہيں ؟
نماز ميں تاخير اور نماز كا وقت نكل جانے ميں فرق
سوال: 13496
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دينى معاملات اور خاص كر نماز كى سمجھ اور فہم كى حرص ركھنے پر اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اس عظيم امانت كى پابندى سے ادائيگى كرنے پر آپ كى معاونت فرمائے ـ يعنى لوگوں كو نمازوں ميں امامت كى امانت كى ادائيگى ـ.
آپ نے جو كچھ دريافت كيا ہے اس ميں چند ايك امور شامل ہيں:
اول:
صحيح مسلم ميں جو بيان ہوا ہے كہ صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين نے ان آئمہ كرام كے خلاف لڑنے اورقتال كرنے كى اجازت طلب كى تھى جو دين ميں تبديلى اور نئى اشياء ايجاد كر ليتے ہيں، اور صحابہ كرام يہ پسند نہيں كرتے تھے، اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نماز وقت پر ادا نہ كرنا اور اس كے وقت سے نماز ميں تاخير كرنا بھى تغير اور تبديلى ہے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں لڑائى كى اجازت نہيں دى جب تك وہ نماز كى پابندى كرتے رہيں.
صحيح مسلم ميں روايت موجود ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دى كہ كچھ امام آئينگے جو نماز وقت پر ادا نہيں كرينگےبلكہ وقت سے ليٹ كر كے ادا كرينگے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو نماز وقت پر ادا كرنے كا حكم ديا اور ان اماموں كے ساتھ ادا كردہ نماز كو نفل بنانے كا كہا، ذيل ميں ہم اس كے الفاظ بيان كرتے ہيں:
اول:
وہ احاديث جو تغير و تبدل كرنے والے آئمہ كرام جو نماز كے پابند ہوں سے لڑائى اور قتال كرنے كى ممانعت ميں وارد شدہ احاديث:
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كچھ امراء آئينگے چنانچہ تم كچھ اشياء كى پہچان كروگے، اور كچھ كو ناپسند كروگے، جس نے جان ليا وہ گناہ سے بري ہو گيا، اور جس نے انكار اور ناپسند كيا وہ گناہ سے بچ گيا، ليكن جو راضى ہو گيا اور اس كى پيروى كر لى گناہ اس پر ہے، صحابہ كرام نے عرض كيا: كيا ہم ان سے قتال اور لڑائى نہ كريں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں جب تك وہ نماز ادا كرتے رہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1854 ).
عوف بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارے وہ امام بہتر اور اچھے ہيں جنہيں تم پسند كرتے ہو اور وہ تمہيں پسند كرتے ہوں، اور وہ تمہارے ليے رحمت كى دعا كريں، اور تم ان كے ليے دعا كرو، اور برے اور شرير امام وہ ہيں جن سے تم بغض ركھو، اور وہ تم سے بغض ركھيں، اور تم ان پر لعنت كرو اور وہ تم پر لعنت كريں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ سے عرض كيا گيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم تلوار كے ساتھ ان سے نہ لڑيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں جب تك وہ نماز ادا كرتے رہيں، اور جب تم اپنے حكمرانوں ميں كوئى برى چيز ديكھو تو اس كے عمل كو برا جانو، ليكن تم اس كى اطاعت سے ہاتھ مت كھينچو "
دوم:
وہ احاديث جو اس پر دلالت كرتى ہيں كہ وہ امام جو نماز ميں تاخير كريں اور وقت پر ادا نہ كرتے ہوں، ليكن اس كے باوجود ان كے ساتھ نماز ادا كى جائے، اور ان كے خلاف لڑنے كا حكم نہيں ديا.
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
" تيرى حالت كيا ہو گى جب تجھ پر وہ حكمران ہونگے جو نماز وقت پر ادا نہيں كرينگے بلكہ اس ميں تاخير كرينگے، يا وہ نماز كو اس كے وقت سے نكال كر ادا كرينگے.
راوى كہتے ہيں ميں كہا: آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم وقت پر نماز ادا كر ليا كرو، اور اگر ان كے ساتھ نماز پاؤ تو ان كے ساتھ بھى نماز ادا كرلينا، كيونكہ يہ تمہارے ليے نفلى نماز ہو گى "
دوم:
اس حديث ميں آئمہ سے مراد حكمران ہيں جيسا كہ ام سلمہ اور ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث سے واضح ہے.
سوم:
يہ سوال كا مقام ہے كہ نماز وقت سے تاخير كرنے كا معنى كيا ہے:
حديث ميں اس سے مقصود يہ ہے كہ اختيارى وقت سے نماز ليٹ كر كے ادا كرنا.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" تمہارى حالت اس وقت كيا ہو گى جب تم پر ايسے حكمران ہونگے جو نماز وقت سے تاخير كر كے ادا كرينگے، يا نماز وقت سے مار دينگے ؟
راوى كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم نماز وقت پر ادا كر لينا، اور اگر ان كے ساتھ نماز پاؤ تو ان كے ساتھ بھى ادا كر لينا يہ تمہارے ليے نفلى نماز ہو گى "
وقت سے مار دينگے كا معنى يہ ہے كہ وہ نماز كو ليٹ كرينگے، اور اسے ميت كى طرح كر كے ركھ دينگے جس كى روح نكل چكى ہو.
اور وقت سے تاخير كرنے كا مقصد يہ ہے كہ: وہ اختيارى وقت سے ليٹ كرينگے، نہ كہ سارے وقت سے، كيونكہ متقدمين اور متاخير حكمرانوں سے اختارى وقت سے تاخير ہى منقول ہے، ان ميں سے كسى ايك نے بھى سارے وقت سے ليٹ كر كے نماز ادا نہيں كى، اس ليے اسے اس پر ہى محمول كيا جائيگا جو فى الواقع ہے. اھـ
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 5 / 147 ).
اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے اس سے آپ كے ليے يہ واضح ہوا كہ اقامت نماز اور نماز ميں تاخير كرنے ميں فرق پايا جاتا ہے، چنانچہ احاديث ميں تاخير سے مراد يہ نہيں كہ وہ وقت نكل جانے كے بعد ادا كرتے ہيں، بلكہ مراد يہ ہے كہ وہ اختيارى وقت سے ليٹ كر كے ادا كرتے ہيں.
مثلا اگر نماز عصر كو سورج زرد ہونے تك مؤخر كر ديا جائے، يا پھر نماز مغرب كو سرخى غائب ہونے كے قريب ادا كيا جائے؛ اور عدم اقامت سے مراد يہ ہے كہ: نماز بالكل ادا نہ كى جائے تو اس طرح سب احاديث ميں جمع اور اتفاق پيدا ہو جاتا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد