سوال: سجدہ ِشکر کی فضیلت: (بندہ جس وقت نما زپڑھ کر سجدہ شکر کرتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں اور بندے کے درمیان سے پردہ کھول دیتا ہے، اور فرماتا ہے: میرے فرشتو! میرے اس بندے کو دیکھو! اس نے فرض ادا کیا، اور میرے ساتھ وعدہ بھی نبھایا، اور پھر اس پر میں نے جو نعمت کی ہے اس کے بدلے میں سجدہ شکر بھی کیا، میرے فرشتو! اس کے لئے کیا ہونا چاہیے؟ تو فرشتے کہتے ہیں: یا رب! تیری رحمت ہونی چاہیے، تو پھر اللہ تعالی فرماتا ہے: اس کے بعد کیا ہونا چاہیے؟ تو فرشتے کہتے ہیں: یا رب! تیری جنت ہونی چاہیے، تو پھر اللہ تعالی فرماتا ہے: اس کے بعد کیا ہونا چاہیے؟ تو فرشتے کہتے ہیں: یا رب! اس کی ساری خواہشات پوری کر دی جائیں، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: پھر اس کے بعد کیا ہونا چاہیے؟ تو فرشتے خیر و بھلائی کی ہر چیز کا ذکر کر دیتے ہیں، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے فرشتو! اس کے بعد کیا ہونا چاہے؟ تو فرشتے کہتے ہیں: یا رب! اب ہمیں کچھ نہیں پتا، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اسکا شکر ادا کرونگا جیسے اس نے میرا شکر ادا کیا، اور اس پر میں اپنا فضل کھول دونگا، اور اسے اپنی رحمت دکھاؤ ں گا) اس حدیث کی صحت کے بارے میں بتلائیں، اللہ تعالی آپکو برکتوں سے نوازے۔
سجدہ شکر کی فضیلت میں من گھڑت حدیث
سوال: 135901
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سجدہ شکر مستحب ہے، اور سجدہ شکر ایک سجدے کا نام ہے جو مسلمان کسی بھی حصولِ نعمت یا زوالِ نقمت پر کرتا ہے، اس سجدے کے مستحب ہونے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا عمل ثابت ہے۔
چنانچہ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی پر مسرت معاملہ پیش آتا ، یا آپکو خوشخبری دی جاتی تو اللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے” ابوداود: (2774) البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
اور جب اللہ تعالی نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول فرمائی تو اس وقت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی سجدہ شکر کیا ، اسے بخاری: (4418)، اور مسلم: (2769) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس وقت سجدہ شکر ادا کیا جب آپکو مسیلمہ کذاب کے قتل ہونے کی خبر دی گئی۔
علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت سجدہ شکر ادا کیا جب انہیں خوارج کے مقتولین میں خاتون کے پستان جیسے بازو والے شخص کی خبر دی گئی۔
دیکھیں: “مصنف ابن ابی شیبہ” (2/366-368)
سوال میں ذکر شدہ حدیث کو قابل اعتماد محدثین میں سے کسی نے بھی بیان نہیں کیا، آثارِ صحابہ اور احادیث بیان کرنے والی کتب میں بھی یہ روایت موجود نہیں ہے، بلکہ اس حدیث کو کچھ شیعہ کتب بیان کرتی ہیں جو کہ جھوٹی اور من گھڑت احادیث سے بھر پور ہیں، مثال کے طور پر: ” من لا يحضره الفقیہ ” (1/333، حدیث نمبر:979، باب: سجدہ شکر ، اور سجدہ شکر کی دعا کے بارے میں، اسی طرح كتاب ” تهذيب الأحكام ” از طوسی: (2/110)، لیکن ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کو جعفر الصادق سے بیان کیا گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے، نیز اس کی سند میں محمد بن ابو عمیر “مجہول “ہے، جس کے بارے میں ” لسان الميزان ” (5/221) میں ہے کہ : “محمد بن ابی عمیر اپنے والد سے بیان کرتا ہے، اور ابن جریج اس سے بیان کرتا ہے، لیکن یہ مجہول ہے”انتہی
اس کی سند میں اسی طرح “حريز بن ابی حريز “، اور “مرازم بن حكیم” بھی ہیں ، ان کے بارے میں کسی بھی اہل علم نے توثیق ذکر نہیں کی، ان کے حالات پڑھنے کیلئے آپ رجوع کریں: “لسان الميزان” (2/181 ، 186)
چنانچہ خلاصہ یہ ہوا کہ :
اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں ہے، اور لوگوں میں اس حدیث کو نشر کرنے سے روکنا چاہیے۔
مزید فائدے کیلئے آپ سوال نمبر: (5110)، اور (21888) کا مطالعہ کریں
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات