تصوير كا حكم كيا ہے ؟
اور كيا كيمرہ كى فوٹو اور مجسمہ سازى ميں فرق ہے، اور كيا انسان كے پورے جسم كى تصوير يا جسم كے كسى حصہ مثلا چہرہ يا سينہ وغيرہ كى تصوير ميں فرق ہے ؟
ضرورت كى بنا پر جسم كے كچھ حصہ كى تصوير بنانے كا جواز
سوال: 13633
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ كسى پر مخفى نہيں كہ تصوير اور فوٹو جاہلت كے قابل مذمت اعمال ميں شامل ہوتا ہے، جس كى شريعت اسلاميہ نے مخالفت كى ہے، اولا صريح احاديث ميں تواتر كے ساتھ اس كى ممانعت آئى ہے، اور ايسا كرنے والے پر لعنت كى گئى ہے، اور اسے جہنم ميں شديد قسم كے عذاب كى وعيد سنائى گئى ہے، جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ميں ہے:
" ہر مصور كے ليے جہنم ميں ہر تصوير كے بدلے ايك جان اور نفس بنايا جائيگا جس سے اسے جہنم ميں عذاب ديا جائيگا "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
اور سارى ذى روح مخلوق كو شامل ہے، جس ميں آدمى وغيرہ سب شامل ہوتے ہيں، اور مجسدہ اور غير مجسدہ يعنى جسم اور غير جسم والى تصوير ميں كوئى فرق نہيں، چاہے وہ كسى آلہ كے ساتھ اتارى گئى ہو يا پھر رنگ اور نقش و نگار وغيرہ كے ساتھ بنائى گئى ہو يہ سب احاديث كے عموم ميں شامل ہے.
اور جس كسى كا گمان يہ ہے كہ كيمرہ سے بنائى گئى فوٹو ممانعت كے عموم ميں شامل نہيں، بلكہ ممانعت جسم والى يعمى مجسمہ يا پھر جس كا سايہ ہو اس كے ساتھ مخصوص ہے، تو اس كا يہ گمان باطل ہے، كيونكہ اس سلسلہ ميں احاديث عام ہيں، اور تصوير ميں فرق نہيں كيا گيا.
اور پھر علماء كرام نے صراحت كے ساتھ بيان كيا ہے كہ كيمرہ وغيرہ كے ساتھ بنائى گئى تصوير كو بھى ممانعت عام ہے، مثلا امام نووى اور حافظ ابن حجر وغيرہ نے اس كى صراحت كى ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى كے پردے كے قصہ والى حديث اس سلسلہ ميں بالكل صريح ہے، اور اس حديث سے وجہ الدلالت يہ ہے كہ: اس پردہ ميں جو تصاوير تھيں وہ مجسمہ نہيں تھيں، بلكہ وہ تو كپڑے ميں صرف نقوش تھے، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اللہ تعالى كى مخلوق پيدا كرنے كے مقابلہ كرنےميں شمار كيا.
ليكن اگر تصوير پورى نہ ہو، مثلا چہرے اور سر كى تصوير يا سينہ وغيرہ كى تصوير، اور تصوير سے وہ چيز زائل كر دى گئى ہے جس كے ساتھ زندگى باقى نہيں رہتى، تو اكثر فقھاء كى كلام كے مطابق اس كى اجازت ہے، اور خاص كر جب اس طرح كى تصوير كى اجازت ہو، يعنى جسم كے بعض حصہ كى تصوير.
بہر حال بندے كو اللہ تعالى كا ہر حال ميں حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے منع كردہ امور سے اجتناب كرتے رہنا چاہيے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
( اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا ) الطلاق ( 2 – 3 ). .
ماخذ:
ماخوذ از: فتاوى فضيلۃ الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ