ميرا عقد نكاح ہوا اور يہ اتفاق ہوا كہ گھر تيار ہونے كے بعد رخصتى ہوگى، ليكن ہم نے رخصتى سے قبل ہى كئى بار جماع كر ليا، اور اس كے بعد ہم ليڈى ڈاكٹر كے پاس گئے تو اس نے ہميں بتايا كہ پردہ بكارت ميں لچك ہے اور يہ آپريش كےذريعہ ہى پھٹےگا، يا پھر پہلا بچہ پيدا ہونے كى صورت ميں پھٹےگا، ہم انتہائى خوشى ميں تھے.
پھر ميرے اور بيوى كے مابين اختلاف پيدا ہو گيا تو اس نے مجھ سے طلاق كا مطالبہ كر ديا تو ميں نے اسے طلاق دے دى اور نكاح خوان نے اس سے دريافت كيا كہ تم كنوارى ہو تو اس نے كہا جى ہاں ميں كنوارى ہوں، اس ليے كہ ابھى پردہ بكارت تو پھٹا نہيں تھا.
ميرا پہلا سوال يہ ہے كہ: كيا وہ ابھى تك كنوارى ہے يا نہيں ؟
اور ميرى دوسرا سوال يہ ہے كہ: كيا طلاق كے اسٹام ميں جو لكھا ہے كہ يہ كنوارى ہے يہ صحيح ہے يا نہيں ؟
اور ميرى تيسرا سوال يہ ہے كہ:
اگر ميں اس سے رجوع كرنا چاہوں تو كيا ميں اس سے رجوع كر سكتا ہوں، يا كہ نيا نكاح كرنا پڑےگا ؟
عقد نكاح كے بعد بيوى سے جماع كيا اور پھر اسے طلاق دے دى تو كيا بغير عقد نكاح كے رجوع ہو سكتا ہے ؟
سوال: 136369
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عقد نكاح كے بعد خاوند كے ليے بيوى سے استمتاع كرنا جائز ہے، ليكن وہ عرف عام كا خيال كرتے ہوئے اس سے دخول مت كرے، اس ليے كہ ايسا كرنے سے خرابياں پيدا ہو سكتى ہيں، مثلا وہ اس جماع سے حاملہ ہو جائے، اور رخصتى كے مقرر كردہ وقت سے يا پھر رخصتى كے بعد وقت سے قبل ہى ولادت ہو جائے تو عورت پر تہمت لگ جائيگى، يا پھر خاوند سے طلاق ہو سكتى ہے، يا خاوند فوت ہو سكتا ہے، تو اس طرح گمان كيا جائيگا كہ عورت كنوارى ہے حالانكہ وہ كنوارى نہيں رہى.
دوم:
جب جماع كر ليا جائے تو پھر بيوى كنوارى نہيں رہتى چاہے پردہ بكارت پھٹ جائے يا نہ پھٹے.
آپ نے اسے جو طلاق دى ہے وہ طلاق صحيح ہے، اور اس ميں نكاح خوان كا طلاق كے اسٹام ميں كنوارى لكھنا كوئى مؤثر نہيں ہوگا، بلكہ كنوارى ہونے يا كنوارى نہ ہونے پر تو مہر كا مسئلہ كھڑا ہوتا ہے، اس ليے جسے كنوارى ہونے كى صورت ميں ـ يعنى يہ طلاق دخول سے قبل ہوئى ہو ـ اور اس كو نصف مہر ديا جائيگا، اور جسے دخول كے بعد طلاق ہوئى ہو اسے پورا مہر ديا جائيگا.
صحيح يہ ہے كہ اگر عورت سے خلوت كے بعد طلاق ہو تو اسے پورا مہر ديا جائيگا چاہے دخول نہ بھى ہوا ہو.
مزيد آپ سوال نمبر (97229 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
جب آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا اور اسے واپس اپنى عصمت ميں لانا چاہيں اور آپ نے بغير عوض اسے ايك طلاق دى ہو تو آپ كے ليے دوران عدت بغير عقد نكاح كے رجوع كرنا جائز ہے، كيونكہ رجعى طلاق والى عورت بيوى كے حكم ميں ہوتى ہے جب تك وہ عدت ميں ہو، اس ليے آپ اس سے رجوع كر سكتے ہيں چاہے وہ راضى نہ بھى ہو.
اور اگر طلاق عوض ميں ہوئى ہے، يعنى اس نے آپ كو مال دے كر يا پھر اپنے مہر سے دستبردار ہو كر آپ سے طلاق لى ہے يہ خلع شمار ہوتا ہے، اور آپ كى عصمت ميں اسى صورت ميں واپس آ سكتى ہے كہ آپ اس سے نيا نكاح كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات