آپ نے عورت كے نقاب اور چہرے كا پردہ كرنے كے موضوع ميں جو كچھ لكھا ہے ميں نے ا سكا مطالعہ كيا ہے، حالانكہ ميں نے كچھ دلائل پڑھے ہيں جس سے يہ واضح ہوا ہے كہ چہرے كا پردہ كرنا درج ذيل امور كى بنا پر اختيارى ہے:
جب پردہ كى آيات نازل ہوئيں تو صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں ہى نے اپنا پورا جسم ڈھانپنے كے ساتھ ساتھ چہرے كا بھى پردہ كيا، ليكن باقى مسلمان عورتوں نے اپنے چہرے نہيں ڈھانپے.
جب كوئى صحابى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجتا اور اس سے منگنى كرنا چاہتا تو وہ جا كر خفيہ طور پر اسے ديكھتا اور عورت كو اس كا علم بھى نہ ہوتا، طبعى طور پر يہ ہے كہ اگر وہ اپنے چہرے كا پردہ كرتى ہوتى تو اس كے ليے ديكھنا ممكن نہ تھا.
اس موضوع نے ميرے ليے تشويش اور پريشانى پيدا كر دى ہے، ميں حق جاننا چاہتا ہوں تا كہ اللہ كى رضامندى كے حصول كے ليے اس پر چل سكوں.
چہرے كا پردہ كرنے كے متعلق ايك اشكال
سوال: 13646
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
حق كو جاننے اور اس كى اتباع و پيروى كى حرص ركھنے پر ہم آپ كے مشكور ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں حق كو حق ديكھنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہميں اس حق پر عمل كرنے كى توفيق دے، اور باطل كو باطل دكھائے، اور اس سے اجتناب كرنے كى توفيق دے.
اس مسئلہ ميں صحيح يہ ہے كہ عورت كے ليے مردوں سے اپنا سارا جسم چھپانا واجب ہے، مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (21134 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
آپ يہ كہنا كہ:
” باقى مسلمان عورتوں نے اپنے چہرے نہيں ڈھانپے تھے ”
يہ بات صحيح نہيں، بلكہ پورا پردہ كرنے كا حكم تو عام ہے، جونبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ا نكى بيٹيوں اور مومن عورتوں سب كے ليے ہے، اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).
اور دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے اس طرح فرمايا:
اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” اللہ تعالى پہلى مہاجر عورتوں پر رحمت كرے جب اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:
اور وہ اپنى چادريں اپنے گريبانوں پر لٹكا ليا كري .
تو انہوں نے اپنى چادريں دو حصوں ميں پھاڑ كر تقسيم كر ليں اور انہيں اپنے اوپر اوڑھ ليا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4480 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4102 ).
اور اختمرن كا معنى يہ ہے كہ: انہوں نے اپنے چہرے ڈھانپ ليے، جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس كى شرح كى ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 8 / 490 ).
آپ اس كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 6991 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” جب يہ آيت:
وہ اپنى چادريں اپنے اوپر لٹكا ليں .
نازل ہوئى تو انصار كى عورتيں باہر نكلتى تو اس طرح ہوتى كہ چادروں كى بنا پر ان كے سروں پر كوے ہيں ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4101 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اس طرح مہاجرين اور انصار كى عورتوں نے اس حكم پر عمل كرتے ہوئے اپنے چہرے كا پردہ كيا.
سوم:
رہا مسئلہ منگنى كرنے والے شخص كا اپنى ہونے والى منگيتر كو ديكھنا تو يہ سنت سے ثابت ہے.
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تم ميں سے كوئى شخص كسى عورت كو شادى كا پيغام دے اور اس سے منگى كرے تو اگر اسے ديكھ سكے جو اس سے نكاح كى دعوت دے تو وہ ايسا ضرور كرے ”
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ايك لڑكى سے منگنى كى اور اسے ديكھنے كے ليے چھپتا رہا حتى كہ ميں اس سے وہ كچھ ديكھ ليا جس نے مجھے اس سے نكاح اور شادى كى دعوت دى تو ميں نے اس سے شادى كر لى ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1783 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 1832 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور ابن ماجہ كى روايت ميں ہے كہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ اسے ديكھنے كے ليے اس كے باغ ميں چھپے تھے.
يہ حديث اس بات كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كى عورتيں اپنے چہرے كا بھى پردہ كيا كرتى تھيں، كيونكہ اگر چہر ننگا ركھنا عورتوں كى عادت ہوتى تو پھر چھپنے كى كوئى ضرورت ہى نہ تھى، كيونكہ اس حالت ميں تو چہر ننگا ہونے كى بنا پر اسے ہر جگہ ديكھ سكتے تھے.
ليكن جب عورتوں كى عادت چہرے كا پردہ كرنا تھى تو اس بنا پر جابر رضى اللہ تعالى عنہ كو چھپنے كى ضرورت پيش آئى، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ اگر عورت كے پاس كوئى نہ ہو تو وہ اپنا چہرہ نہيں ڈھانپتى، اور اسى طرح اگر وہ اپنے گھر يا اپنے كھيت يا باغ ميں ہو تو بھى چہرہ ننگا ركھتى ہے، جيسا كہ اس حديث ميں ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات