بعض خاندانوں میں بہت سے مرد اپنی بیوی یا بیٹی یا پھر اپنی بہن کو غیرمحرم مردوں مثلا دوست واحباب اوررشتہ داروں کے سامنے جانے اوران کے ساتھ بیٹھنے اوران سے بات چیت کی اجازت دیتےہیں جیسے کہ وہ ان کے محرم ہوں ، جب ہم انہیں نصیحت کرتے اورسمجھاتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں تو وہ جواب ميں کہتے ہیں کہ یہ ان کی اوران کےخاندان اورآباء واجداد کی عادت میں شامل ہے ، اوران کا یہ بھی گمان ہے یہ ان کے دل صاف ہوتے ہیں ۔
کچھ تو ان لوگوں میں معاند ہيں اورکچھ متکبر ہیں حالانکہ وہ اس کے حکم کا بھی علم رکھتے ہیں اورکچھ لوگ اس کے حکم سے جاہل ہیں ، توآپ ایسے لوگوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟
عورت کا مردوں کے سامنے جانا
سوال: 13728
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہرمسلمان شخص پر واجب اورضروری ہے کہ وہ عادات اوررسم ورواج پر اعتماد نہ کرے بلکہ اسے شریعت مطہرہ پر پیش کرے جو شریعت مطہرہ کے موافق ہو اس پر عمل کرے اورجو شریعت اسلامیہ کے مخالف ہو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے ، لوگوں کا کسی چيز کی عادت بنالینا اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں ۔
بلکہ لوگوں نے جتنی بھی اپنے خاندانوں ، قبیلوں ، ملکوں اورمعاشروں میں عادات اوررسم ورواج بنا رکھے ہیں انہیں کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنا واجب ہے ، جوکچھ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مباح کیا ہو وہ مباح ہے اورجس سے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس پرعمل کرنا جائز نہيں اوراس کا ترک کرنا اورچھوڑنا واجب ہے چاہے وہ لوگوں کی عادت میں ہی کیوں نہ شامل ہو ۔
اورجب لوگوں نے کسی اجنبی عورت سے خلوت یا غیر محرم سے پردہ نہ کرنے کی عادت بنا لی ہو اوراس میں تساہل سے کام لیں توان کی یہ عادت باطل ہے اسے ترک کرنا واجب ہوگا ، اوراسی طرح اگر کچھ لوگ زنا یا پھر لواطت یا شراب نوشی اورنشہ کرنے کی عادت بنالیں تو ان پر بھی اسے ترک کرنا واجب ہے ، اورعادت ہونا ان کےلیے حجت اوردلیل نہیں بن سکتی ۔
بلکہ شریعت مطہرہ تو سب سے اوپر ہے اس لیے جسے اللہ تعالی نے اسلام کی ھدایت نصیب فرمائي ہے اسے اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں شراب نوشی ، زنا ، چوری و ڈاکہ ، اورقطع تعلقی اورقطع رحمی اورنافرمانی وغیرہ اورباقی جوبھی اللہ تعالی نے حرام کیا ہے سے اجتناب کرنا اوردور رہنا چاہیے ، اوراسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے واجبات کا التزام کرے ۔
اوراسی طرح خاندان والوں پر بھی واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا احترام کریں اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ سے دوررہیں اوراجتناب کریں ، اورجب ان کی عورتوں کی یہ عادت ہوکہ وہ غیرمحرموں سے پردہ نہیں کرتیں یا پھر ان سے خلوت کرتی ہيں توانہيں یہ عادت ترک کرنی چاہیے بلکہ ان پر اسے چھوڑنا واجب ہے ۔
کیونکہ عورت کے لیےجائز نہيں کہ وہ اپنے چچا زاد ، خالہ زاد ، پھوپھی زاد ، یا بہنوئی یا پھر اپنے دیوروں ، اوراپنے خاوند کے چچا اورماموں کے سامنے ننگے منہ پھرے اورپردہ نہ کرے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ ان سب سے پردہ کرے اوراپنے سر چہرہ اورباقی بدن وغیرہ کوچھپائے کیونکہ یہ اس کے غیرمحرم ہيں ۔
اوررہا مسئلہ کلام یعنی سلام کے جواب اورسلام کرنا وغیرہ کا تو پردہ کے اندر رہتے ہوئے اورخلوت کے بغیر اس میں کوئي حرج نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو ، تمہارے اوران کےدلوں کے لیے کامل پاکيزگی یہی ہے الاحزاب ( 53 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہيں ہو ، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئي برا خیال کرے ، اورہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو الاحزاب ( 32 ) ۔
تواللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کونرم لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی بات میں نرمی اختیار نہ کریں تا کہ دل میں بیماری رکھنے والا یا پھر جس کے دل میں شھوت کی بیماری ہے وہ یہ خیال کرنے لگے کہ کمزور ہے اوراسے کوئي مانع نہیں ۔
بلکہ اسے درمیانے لہجہ میں بات کرنی چاہیے جس میں نہ تونرمی ہواورنہ ہی درشتی اورسختی ہو اوراللہ تعالی نے یہ بھی بیان کیا کہ پردہ کرنا سب کے دلوں کی پاکیزگي ہے اوربہتر ہے ۔
اورایک مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بیویوں اورصاحبزادیوں سے اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر وہ ستائي نہ جائيں گی ، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ) ۔
جلباب ایسے کپڑے کوکہا جاتا ہے جوسر پررکھا جائے جس سے سارا بدت چھپ جائے اورعورت اسے اپنے سر پر رکھ کر لباس کے اوپرسے اپنے سارے جسم کو چھپاتی ہے ۔
اورایک مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
اورمسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں ، اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے ، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ، اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، یاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔ النور ( 31 )۔
تواس آیت میں مذکور اشخاص کے علاوہ کسی اورکے سامنے وہ اپنی زينت کوظاہر نہیں کرسکتی ۔
توسب مسلمان عورتوں پر واجب اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں اوراللہ تعالی نے جوان کی زينت کے ظاہر کرنے سے ان پر حرمت کی ہے اس کے ظاہر کرنے سے بچیں اورانہيں غیرمحرموں کے سامنے زينت کے ساتھ سامنے نہيں آنا چاہیے ۔.
ماخذ:
دیکھیں : فتاوی و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 6 / 406 ) ۔