ہمارے دين اسلام ميں مزاحيہ كلام كرنے اور لطيفے بيان كرنے كا حكم كيا ہے، اور آيا يہ لہو الحديث ميں شامل ہوتى ہے يا نہيں، يہ علم ميں رہے كہ دين كے ساتھ مذاق نہيں، اس كے متعلق فتوى ديں كر عند اللہ ماجور ہوں ؟
0 / 0
8,35329/08/2007
اسلام ميں مزاحيہ كلام اور لطيفے بيان كرنے كا حكم
سوال: 13732
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مزاحيہ كلام اور لطيفہ اگر حق اور صدق كے ساتھ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور خاص يہ كثرت سے نہ ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى مزاح كرتے اور حق كے علاوہ كچھ نہ كہتے، ليكن اس ميں جھوٹ بولنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اس شخص كے ليے تباہى ہے جو كلام كرتے وقت لوگوں كو ہنسانے كے ليے جھوٹ بولتا ہے، اس كے ليے ہلاكت و تباہى ہے، پھر اسكے ليے ہلاكت و تباہى ہے "
اسے ابو داود، نسائى، اور ترمذى نے جيد سند كے ساتھ روايت كيا ہے، اور اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 391 )