مقتدى ايك امام كے پيچھے نماز ادا كرنا پسند نہيں كرتے، اور امام كو اس كا علم بھى ہے، چنانچہ اس مسئلہ ميں كيا كرنا چاہيے ؟
مقتدى امام كو ناپسند كرتے ہيں اور امام اس كا علم ہونے كے باوجود نماز پڑھاتا ہے
سوال: 13766
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر لوگ كسى حق بات كى بنا پر امام كى امامت كرانا ناپسند كرتے ہوں تو اس كا امامت كرانا مكروہ ہے، وہ اسطرح كہ ان كا اس امام كے پيچھے نماز ادا نہ كرنے كا كوئى شرعى سبب اور اس ميں دينى نقص ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تين قسم كے لوگ ايسے ہيں جن كى نماز ان كے كانوں سے تجاوز نہيں كرتى: بھاگ جانے والا غلام حتى كہ وہ واپس پلٹ آئے، اور وہ عورت جس نے خاوند كى ناراضگى ميں رات بسر كى، اور وہ امام جسے قوم ناپسند كرتى ہو"
اسے امام ترمذى نے روايت كيا اور حسن قرار ديا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر تو اس امام كو كسى دينى معاملے ميں ناپسند كرتے ہوں، مثلا اس كى كذب بيانى، يا ظلم، يا جھالت، يا بدعت وغيرہ، اور كسى دوسرے امام كو اس ليے پسند كرتے ہوں كہ وہ دينى معاملات ميں زيادہ صالح ہے، مثلا وہ سچائى اختيار كرنے والا ہو، اور دينى علم زيادہ ركھے، تو اسے امام بنانا واجب ہے جسے وہ دين كى بنا پر پسند كرتے ہيں، نہ كہ اسے امام بنائيں جسے وہ ناپسند كرتے ہوں.
جيسا كہ درج ذيل حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے:
فرمان نبوى ہے:
" تين قسم كے افراد كى نماز ان كے كانوں سے تجاوز نہيں كرتى: وہ شخص جو كسى قوم كى امامت كروائے اور لوگ اسے ناپسند كرتے ہوں، اور وہ شخص جو نماز ليٹ كر كے ادا كرے، ايك وہ شخص جس نے كسى آزاد شخص كو غلام بنا ليا "
اور شيخ الاسلام كا يہ بھى كہنا ہے:
اگر امام اور مقتدى كے درميان اہل اھواء اور خواہشات يا پھر مذاہب جيسا تنازع اور عداوت ہو تو اسے ان كى نماز ميں جماعت كى امامت نہيں كروانى چاہيے؛ كيونكہ امامت تو اتفاق اور الفت كے ساتھ ہوتى ہے، اور اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم آپس ايك دوسرے سے عليحدہ نہ كھڑے ہو وگرنہ تمہارے دل بھى اختلاف كرينگے" اھـ
ليكن اگرامام دين اور اخلاق و سنت كا مالك ہو، اور لوگ اسے ناپسند كرنے لگيں تو ايسے امام كے حق ميں اس كى امامت كو ناپسند نہيں كيا جائيگا، بلكہ اسے ناپسند كرنے والا ہى قابل عتاب اور سزا ٹھرے گا.
بہر حال امام اور مقتديوں كے مابين اتحاد اور الفت قائم ہونى چاہيے، اور وہ نيكى و بھلائى ميں ايك دوسرے كا تعاون كريں، اور خواہشات اور شيطانى اغراض كے پيچھے چلتے ہوئے آپس ميں بغض و عناد اور عداوت سے كنارہ كش رہيں، چنانچہ امام كو چاہيے كہ وہ مقتديوں كے حقوق كا خيال ركھے اور انہيں مشقت اور مشكلات ميں نہ ڈالے، اور ان كے احساسات كا احترام كرے.
اور مقتديوں كو بھى چاہيے كہ وہ امام كے حقوق كا خيال كريں، اور اسے عزت ديں اور احترام كريں، اجمالا يہ ہے كہ ہر ايك فريق كو دوسرے كے بارہ ميں صبر وتحمل سے كام لينا چاہيے، اور بلا وجہ ہى كسى دوسرے پر تنقيد اور كيچڑ نہيں اچھالنا چاہيےجو اس دين اور مروءت كے خلل اور كمى ميں سے نہ ہو، كيونكہ انسان كمى و كوتاہى كا پتلا ہے "
ديكھيں كتاب: المخلص الفقھى ( 1 / 155 – 156 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب