کسی شخص کو اس کی ذاتی ضروریات کی وجہ سے میں نے قرضہ دیا، اب وہ ایک ایسا منصوبہ شروع کرنے والا ہے جو عام طور پر سودی قرضہ لے کر شروع کیا جائے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ: کیا میرے لیے اس شخص سے اپنا قرضہ لینا درست ہے؟ کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہ مجھے جو رقم دے گا وہ سودی طریقے سے حاصل کی گئی ہو گی۔
کیا سودی لین دین کرنے والے سے پورا قرض واپس لے؟
سوال: 137772
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کسی شخص کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرض دینا جائز ہے، یہ تو بلکہ احسان اور دوسروں کا بھلا کرنے کے زمرے میں آتا ہے، یہ کام کرنے والے کو اللہ تعالی کی طرف سے اجر و ثواب ملتا ہے جیسے کہ حدیث ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی مسلمان اپنے بھائی کو دو بار قرض دے تو اسے اتنی ہی رقم ایک بار صدقہ کرنے کے برابر اجر ہو گا) اس حدیث کو ابن ماجہ: (2430) نے روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے اسے اپنی صحیح میں، اور بیہقی نے اسے مرفوع اور موقوف بیان کیا ہے، اور البانی ؒ نے اسے "إرواء الغليل" (5/ 225)میں حسن قرار دیا ہے۔
اگر آپ کا دوست اپنے منصوبے کے لیے سودی قرضہ لے گا تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا، چنانچہ اگر اس سودی قرضے پر قائم ہونے والے منصوبے کے منافع سے وہ آپ کو قرض واپس کرے تو اس کا نقصان آپ کو نہیں ہو گا؛ کیونکہ سود تو اس رقم میں ہے جو اس نے بینک سے لی ہے، سود اس رقم میں نہیں ہے جو اس منصوبے کے منافع میں ملی ہے۔
اور اگر فرض کریں کہ وہ قرضہ سودی منافع سے ادا کرتا ہے تو پھر بھی آپ کے لیے رقم وصول کرنا جائز ہے؛ کیونکہ آپ تو اس سے یہ مال اپنے قرض کی واپسی کی شکل میں لے رہے ہیں۔
یہاں آپ اپنے دوست کو نصیحت کریں کہ سودی لین دین سے بچیں کیونکہ اس سے برکت مٹ جاتی ہے اور دنیا و آخرت میں خسارہ حصے میں آتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ، اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو پھر تمہارے لیے تمہارا رأس المال ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے گا۔[البقرۃ: 278-279]
صحیح مسلم: (1598) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے، اور دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور کہا: یہ سب کے سب برابر ہیں۔)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب