مجھے آپ کی نصیحت کی ضرورت ہے ، میں پانچ برس قبل مسلمان ہوا ہوں میرا اللہ تعالی پر ایمان ہے اورپانچوں نمازیں پڑھتا اوررمضان المبارک کے روزے رکھتا ہوں ، اورشادی کے لیے لڑکی تلاش کررہا ہوں ، لیکن جب میں نے اپنی پسندکی لڑکی دیکھی جو کہ میری برادری کی نہیں جس کی بنا پراس کے گھروالے میرے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتے ۔
مذکورہ لڑکی اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہے اوراصلا برصغیر سے تعلق رکھتی ہے اورایک ایشیائی لڑکی ہے / انڈین / پاکستانی / بنگالی ، یہ معروف ہے کہ ان ممالک کے لوگ اپنے بچوں کی شادی اورخاص کر لڑکیوں کی غیربرادری میں شادی نہیں کرتے کیونکہ ان کی ثقافت مختلف ہوتی ہے ، اگرچہ لڑکا کتنا ہی دین والا ہی کیوں نہ ہو ۔
مسئلہ یہ ہے کہ میری اس لڑکی سے شادی نہیں ہوسکی کیونکہ میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اوراس علاقے میں بسنے والے صحیح اورمستقیم قسم کے مسلمانوں کی اکثریت بھی برصغیر کے مسلمانوں کی ہی ہے ، یہاں پر میرا مندرجہ ذیل سوال ہے :
1 – میرے جیسے ایک نئے مسلمان کے لیے شادی کرنا کیسے ممکن ہے ؟
2 – کیا جوشخص اسلام میں داخل ہوا ہے وہ اسی عورت سے شادی کرسکتا ہے جس نے نیا اسلام قبول کیا ہو ، اورکیا اسلامی ثقافت میں اس طرح کے فرق کی کوئي اساس پائي جاتی ہے ؟
نئے مسلمان کی شادی ، اورکیا شادی میں قبیلے اوربرادری کی شرط ہے
سوال: 13780
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
اول :
پہلےاوردوسرے سوال کے بارہ میں گزارش ہے کہ : آپ کے اسلام میں داخل ہونے سے آپ مسلمانوں کے ایک فرد کی حیثيت اختیار کرگئے ہيں اس طرح جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہی آپ کے اورجوچيز ان پرواجب ہوتی ہے وہی آپ پر بھی واجب ہے ۔
لھذا اس بنا پر اب آپ کے لیے ضروری اورواجب ہے کہ آپ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتےہوئے اپنی عفت عصمت کی حفاظت کےلیے کوئي اچھی سی دین والی عورت تلاش کرکے شادی کریں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تیرے ہاتھ خاک میں ملیں دین والی عورت اختیار کر ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5090 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1466 ) ۔
چاہے یہ عورت ایک نئي مسلمان ہو یا پھر خاندانی طور پر پہلے ہی مسلمان ہو اس میں اہم چيز یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونی چاہیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گيا ہے ۔
پھر دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ کسی دین والی لڑکی کو شادی کا پیغام دیں اوروہ قبول نہ کرے یا پھر اس کے گھروالے شادی کرنے سے انکار کردیں تو آپ صبر وتحمل سے کام لیں اور تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے دعا بھی کریں کہ وہ آپ کو اچھی اورنیک وصالحہ بیوی عطا فرمائے جو آپ کے لیے اپنے رب کی اطاعت کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہو۔
دوم :
اورجس تفریق کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے کے بارہ میں گزارش ہے کہ اسلام میں ایسی کوئي چیز نہیں بلکہ اللہ تعالی نے تو فرمایا ہے :
اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے ، اوراس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو تمہارے قنبے قبیلے بنادیئے ہيں ، اللہ تعالی کے ہاں تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی اورپرہیزگار ہے ، یقین جانو اللہ تعالی بڑا دانا اورباخبر ہے الحجرات ( 13 ) ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک ہی ہے ، خـبردار کسی عربی کو عجمی پر کوئي فضیلت نہیں اورنہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پراورنہ ہی کسی سرخ کو سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو سرخ پر کوئي فضیلت ہے لیکن صرف تقوی کی بنیاد پر فضيلت حاصل ہے ۔۔۔ ) مسند احمد ( 5 / 411 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے غایۃ المرام ( 313 ) میں صحیح قرار دیا ہے اوراس کی تصحیح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی سے سند بھی نقل کی ہے دیکھیں الاقتضاء ( 69 ) ۔
اورایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اپنے آباءواجداد میں فخر کرنے والے لوگ باز آجائیں ۔۔۔۔ یا پھر وہ اللہ تعالی کے ہاں اپنی ناک سے گندگی دھکیلنے والنے کیڑے سے بھی زيادہ ذلیل ہوں گے ، بلاشبہ اللہ تعالی نےآباء واجداد میں جاہلیت کے تکبر وفخر کو زائل کردیا ہے ، یا تو وہ مومن متقی ہے یا پھر فاجر اورلوگوں میں سب سے بدبخت ، سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اورآدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے تھے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3890 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذي ( 3100 ) اور غایۃ المرام ( 312 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی تصحیح بھی نقل کی ہے ۔
حدیث میں الجعل جیم پر پش اورعین پر زبر کے ساتھ ہے اس کا معنی گندگی کا وہ سیاہ کیڑا ہے جو گندگی دھکیلتا رہتا ہے جسے گبریلا کہا جاتا ہے ۔
یدھدہ : کا معنی دھکیلنا اور الخراء گندگی کو کہتے ہیں ۔
عبیۃ الجاھلیۃ : عین پر پیش اورباء پر زير اورشد اوریاء پر شد اورزبر ہے جس کا معنی نخوت اورتکبر ہے ۔
تو اس طرح آپ کے سامنے بالکل اچھی طرح یہ بات واضح ہوگئي ہوگي کہ اسلام مسلمانوں میں فرق نہيں کرتا چاہے وہ زمین کے کسی بھی ٹکڑے پر بسنے والا ہی کیوں نہ ہو اوراس کا رنگ ونسل کچھ بھی ہو یا پھر مالدار اورغنی ہی کیوں نہ ہو بلکہ اسلام میں اللہ تعالی کے ہاں تو فضیلت کا معیار تقوی اورپرہيزگاری ہے ۔
بلکہ شریعت اسلامیہ میں تو عورت کے ولی کو یہ حکم دیا گيا ہے کہ جب اس کے پاس کوئي ایسا رشتہ آئے جس کا دین اوراخلاق اچھا ہواورعورت کے بارہ میں وہ امین بھی ہو تواسے اس کے ساتھ شادی کردینے میں جلدی کرنی چاہیے ، اوراس رشتہ کے رد اورانکار کرنے سے بچنےکو کہا گيا ہے ۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( جب تمہارے پاس ایسا شخص آئے جس کا دین اوراخلاق تمہیں اچھا لگتا ہو تو اس کے ساتھ اپنی بچی کا رشتہ کردو ، اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں وسیع وعریض فساد بپا ہو جائے گا ۔
صحابہ کرام کہنے لگے : اگراس میں کچھ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کا دین اوراخلاق تمہیں پسند ہوتو اس کا نکاح کردو ، یہ تین بارفرمایا ) سنن ترمذي ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 866 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
آپ اس کی مزید تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 13993 ) کا جواب دیکھیں ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کی شادی ایسی عورت سے کرنے میں آسانی پیدا فرمائے جو اللہ تعالی کی اطاعت میں آپ کا تعاون کرنے والی ہو۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب