ايك آدمى نے اپنى بيوى كے پاس آٹھ سو ڈالر امانت ركھے، اور جب بيوى كو طلاق دے دى تو بيوى نے اسے سات سو ڈالر واپس كيے، اب سو ڈالر بيوى كے ذمہ ہيں، بطور علم يہ بتانا مقصود ہے كہ خاوند نے بيوى كو اس كے حقوق كى ادائيگى بھى نہيں كى، اور بلكہ بيوى كا بہت سارا مال بھى اڑا ليا، اور ماں كے پاس پرورش پانے والى بيٹى كا خرچ بھى ادا نہيں كيا، بلكہ اس كا لباس بھى اڑا ليا…
اب يہ بتائيں كہ وہ اس سو ڈالر كى رقم كا كيا كرے، كيا وہ بيٹى پر خرچ كر دے يا كہ اسے خاوند كو واپس كرنا ہونگے كيونكہ طلاق كو اس وقت دو برس ہونے كو ہيں ؟
بيوى پر ظلم كرنے اور بچى پر خرچ نہ كرنے والى خاوند كى امانت واپس نہ كرنا
سوال: 138048
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر كسى شخص كوكسى دوسرے شخص كے ذمہ كوئى حق ہو، اور اس سے وہ اپنا حق نہ لے سكے، اور اس كا مالہاتھ لگ جائے توا كثر علماء كرام كہتے ہيں كہ حقدار شخص ہاتھ آنے والے مال ميں سےبقدر حق لے سكتا ہے.
اور اس كے جوازكى اس صورت ميں اور بھى تاكيد ہو جاتى ہے جب اس حق كا كوئى ظاہر سبب ہو مثلا بيوىاور اولادكا نان و نفقہ.
سنت نبويہ ميں اسكى دليل درج ذيل حديث ميں ملتى ہے:
عائشہ رضى اللہتعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ہند بن عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہعليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگى:
اے اللہ تعالى كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك بخيل آدمى ہے، اگر ميں اس كى لاعلمى ميںكچھ مال نہ لوں تو ميرے اور اولاد كے ليے كافى مال نہيں ملتا ؟
رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بہتر اور معروف طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا كرو جوتمہيں اور تمہارى اولاد كے ليے كافى ہو “
صحيح بخارى حديثنمبر ( 5364 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).
چنانچہ رسول كريمصلى اللہ عليہ وسلم نے ہند رضى اللہ تعالى عنہا كے ليے خاوند كے مال سے اپنا اوراولاد كا نان و نفقہ خاوند كے علم كے بغير لينے كى اجازت عطا فرمائى.
علماء كرام كےہاں يہ مسئلہ ہاتھ لگنے كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے.
ابن قيم رحمہاللہ كہتے ہيں:
” مسئلہ ظفرميں علماء نے بہت وسيع كلام كى ہے…. كچھ نے تو بالكل منع كيا ہے…. اور كچھ نےدرميانہ راہ اختيار كرتے ہوئے كہا ہے:
اگر اس كا كوئىظاہر سبب ہو مثلا زوجيت يا والدين اور اولاد اور ملك يمين جو انفاق كا موجب ہو توپھر وہ بغير بتائے بقدر حق لے سكتا ہے.
ليكن اگر ظاہرسبب نہ ہو مثلا قرض اور فروخت كردہ چيز كى قيمت وغيرہ تو بتائے بغير لينا جائزنہيں.
اس مسئلہ ميں عدلو انصاف پر مبنى قول يہى ہے، اور سنت كے صريح دلائل بھى اس پر دلالت كرتے ہيں؛ اوراس كے قائلين بھى سعادت مند ہيں ” انتہى
ديكھيں: اعلامالموقعين ( 4 / 21 ).
شيخ ابن عثمينرحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص عمارت كاچوكيدار ہے اور عمارت كا مالك اسے تنخواہ نہيں ديتا، چوكيدار نے مالك كے تين سوريال پائے تو لے ليے كيا اس كے ليے يہ ريال ركھنے جائز ہيں يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كاجواب تھا:
” يہ مسئلہاہل علم كے ہاں ” مسئلہ ظفر ” ہاتھ لگنے كا مسئلہ كہلاتا ہے، اور راجحقول كے مطابق جائز نہيں؛ يعنى اگر كسى انسان كا دوسرے شخص پر حق ہو اور وہ اسے اسكا حق ادا نہيں كرتا تو كيا حقدار اس شخص كے مال پر اگر قادر ہو اور اسے مل جائےتو وہ اپنے حق كے مطابق مال لے سكتا ہے يا نہيں ؟
ہم كہيں گے كہ اسكے ليے لينا جائز نہيں، ليكن اگر حق كا سبب واضح اور ظاہر ہو مثلا اگر حق نان ونفقہ تھا يعنى اگر خاوند نفقہ نہيں ديتا تو بيوى اس كے مال سے بقدر ضرورت لے سكتىہے.
اور اسى طرحقريبى رشتہ دار بھى اپنے قريبى رشتہ دار كے مال سے بقدر ضرورت اس وقت لے سكتا ہےجب وہ اپنى ذمہ دارى پورى كرتے ہوئے خرچ ادا نہيں كرتا، اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور اسى طرح اگرميزبان مہمان كى مہمان نوازى نہيں كرتا تو وہ اس كے ليے بھى لينے ميں كوئى حرجنہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں فتنہ و خرابى نہ پائى جائے، اور نہ ہى ايسا كرناعداوت و دشمنى اور بغض و لڑائى كا سبب بنے ” انتہى
ديكھيں: فتاوىنور على الدرب ( 9 / 322 – 323 ).
اس بنا پر اگربيوى كا كہنا حق ہو كہ خاوند اسے اس كے حقوق نہيں ديتا، اور نہ ہى اس كى بيٹى پرخرچ كرتا ہے تو پھر بيوى كے ليے يہ مال لے كر اپنى بيٹى پر خرچ كرنے ميں كوئى حرجنہيں.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب