مجھ پر کچھ مؤجل قرض ہے ، اورقرض دینے والے نے وہ قرض وقت سے قبل ادائيگي کا مطالبہ کیا ہے اورشرط یہ رکھی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں کچھ قرض کی رقم معاف کردے گا ، توکیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
وقت سے قبل قرض کی ادائيگي کے مقابلہ میں کچھ قرض معاف کرنا جائز ہے
سوال: 13945
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب قرض لینے والا یا قرض دینے والا وقت سے قبل قرض کی ادائيگي کرنا چاہے تووقت سے پہلے ادائيگي کی بنا پرقرض کی کچھ رقم معاف کرنی جائز ہے ۔
علماء کرام کے ہاں اس مسئلہ کو( ضع وتعجل ) ادائيگي جلد کردو توکچھ قرضہ معاف ۔
اس معاملہ کے جواز میں علماء کرام نے اختلاف کیا ہے ، اکثر علماء کرام اسے حرام کہتے ہیں ، ان کی دلیل یہ ہے کہ : یہ معاملہ سود کے مشابہ ہے اورسود کی حرمت متفق علیہ ہے ، اورسود یہ ہے کہ قرض میں تاخير کی بنا پررقم بھی زيادہ دینا ہوگي ، اوراس صورت میں وقت سے قبل قرض کی ادائيگي میں قرض میں کمی کی جاتی ہے ۔
امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ” المبسوط ” میں کہتے ہیں :
جب کسی شخص کے ذمہ کسی کا ایک وقت کے لیے قرض ہو اوروہ قرض کسی چيز کی فروخت کی قیمت تھی لھذا وہ وقت سے قبل باقی قرض کی ادائيگی میں اس سے کچھ قرض معاف کرتا ہے تواس میں کوئي خیروبھلائي نہیں ۔۔۔ اس لیے کہ وقت کے مقابلہ میں دراہم اوردراہم کے مقابلہ میں وقت سود ہے ۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ فی الحال قرض میں اگروہ مال میں اس لیے زيادتی کرتا ہے کہ وہ قرض میں اورتاخیر کردے توجائز نہيں ، تو جب وقت سے قبل قرض کی ادائيگي میں کچھ قرض معاف کردیا جائے توبھی اسی طرح ہوگا ۔ اھـ ۔
اورابن رشد مالکی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب بدایۃ المجتھد میں لکھتے ہیں :
قرض جلدادا کرو اوراس میں کچھ کمی کردو ، کوناجائز قرار دینے والوں کی دلیل یہ ہے کہ یہ وقت بڑھانے کی وجہ سے زیادہ کرنے کے مشابہ ہے جس کی حرمت پرسب کا اجماع ہے ۔ اھـ دیکھیں : بدایۃ المجتھد ( 2 / 144 ) ۔
اوردوسرے علماءکرام اس کے جوازے کےقائل ہيں : ان میں عبداللہ بن عباس ، زيدبن ثابت رضي اللہ تعالی عنہم شامل ہیں ،اورامام احمد اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی عنہما کا بھی ایک قول یہی ہے ، اوریہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اوران کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بھی اختیار کیا ہے ۔
فقھاء حنفیہ میں سے ابن عابدین بھی اسے جائز قرار دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے ” الدر المختار ” کے حاشیہ میں لکھا ہے ۔ دیکھیں الدرالمختار ( 5 / 160 ) ۔
اس کے جواز کے قائلین نے چندایک دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے چند ایک ذیل میں پیش کیےجاتے ہیں :
1 – ان کے دلائل میں وہ حدیث شامل ہے جوامام حاکم اورامام طبرانی رحمہم اللہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے :
وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنوالنضیر کومدینہ سے نکالنے کا حکم دیا توکچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے : اے اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ہمیں نکالنے کاحکم دے دیا ہے اورکچھ لوگوں پرہمارے قرض بھی ہیں جن کی ادائيگي کا وقت ابھی تک نہیں آیا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرض میں سےکچھ معاف کردو اورجلدی واپس لے لو ۔
مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس کی سند میں مسلم بن خالدالزنجی ضعیف ہے اوراسے ثقہ بھی کہا گيا ہے ۔ اھـ
اورابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ” احکام اھل الذمۃ میں کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے اوراس میں مسلم بن خالد الزنجی ہی ایسا راوی ہے جس کی حدیثيں حسن کے رتبہ سے کم کی نہیں ۔ اھـ
دیکھیں : احکام اھل الذمۃ لابن قیم ( 1 / 396 ) ۔
2 – اوردلائل میں عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کا قول بھی ہے کہ انہوں نے فرمایا : سود تویہ ہے کہ : مجھے وقت زيادہ دے اورمیں تجھے زيادہ دیتا ہوں ، اوریہ سود نہيں کہ مجھے جلد واپس کردو اورمیں تمہیں معاف کرتاہوں ۔
3 – ایک دلیل یہ بھی ہے کہ: اس میں طرفین ( قرض لینے اوردینے والے ) کی مصلحت ہے ، قرض دینے والا قرض کی جلد واپسی سے اورلینے والا کچھ قرض کی معافی سے مستفید ہوتا ہے ۔
اسے حرام کہنے والوں کی دلیل کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس معاملے کوسود پرقیاس کرنا صحیح نہیں اس لیے کہ یہ سود کے برعکس ہے ، کیونکہ سود میں تومدت کی زیادتی کی بنا پرقرض زيادہ ہوجاتا ہے ، اوریہاں پرمدت میں کمی ہونے کی بنا پرقرض میں بھی کمی ہورہی ہے ، توبرعکس مسئلہ کواس پرکیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ؟ ! ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی اوپر بیان کی گئي کلام کا یہی معنی ہے ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
یہ سود کے مخالف ہے کیونکہ وہ تومدت اورقرض دونوں میں زيادتی ہوتی ہے ، اوریہ قرض لینے والے کوسراسر نقصان ہی نقصان ہے ، اورہمارا یہ مسئلہ توقرض لینے والے کے لیے قرض سے بری الذمہ ہونے کومتضمن ہے اورقرض دینے والے کووقت سے پہلے ادائيگي ہوجاتی ہے جس سے اسے فائدہ ہوتا ہے ، لھذا بغیر کسی نقصان کے دونوں کوہی فائدہ حاصل ہوا ہے ، برخلاف سود کے جس کی حرمت پراجماع ہے اس میں توقرض لینے والے کونقصان ہوتا اورفائدہ قرض دینے والے کے ساتھ مختص ہوتا ہے ، لھذا یہ معنی اورصورت کے اعتبار س سے بھی سود کے خلاف ہے ۔ اھـ
لجنۃ الدائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے اس مسئلہ کے بارہ میں سوال پوچھا گيا تواس کا جواب تھا :
( اس مسئلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ، صحیح قول یہی ہے کہ قرض جلد واپس کرنے کے لیے کچھ قرض معاف کرنا جائز ہے ، امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت یہی ہے اورشیخین ابن تیمیہ اورابن قیم رحمہما اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی طرف بھی یہ قول منسوب ہے ۔۔۔۔ اھــ ) ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ ا لدائمۃ ( 13 / 168 ) ۔
المجمع الفقھی کی فیصلوں میں سے یہ بھی ہے کہ :
مدت والے قرض میں سے جلد واپس کرنے کی غرض سے کچھ قرضہ معاف کردینا شرعا جائز ہے چاہے قرض دینے والے یا لینے والے کے مطالبہ سے معاف کیا جائے ، یہ حرام سود میں شامل نہيں ہوتا ۔ اھـ
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب