آپ سے ميرى گزارش ہے كہ مسلمان عورتوں كے پردہ كے متعلقہ آيات اور احاديث پيش كريں، جس ميں پردہ كى اہميت واضح كى گئى ہو.
پردہ كے متعلق احاديث اور آيات
سوال: 13998
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پردہ كے متعلق آيات كريمہ:
1 – اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).
2 – اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
بڑى بوڑھى عورتيں جنہيں نكاح كى اميد ( اور خواہش ہى ) نہ رہى ہو وہ اگر اپنى چادر اتار ركھيں تو ان پر كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھى ا حتياط ركھيں تو ان كے ليے بہت بہتر اور افضل ہے، اور اللہ تعالى سنتا اور جانتا ہے النور ( 60 ).
آيت ميں " القواعد " سے مراد وہ عورتيں ہيں جن كى عمر زيادہ ہو چكى ہو،اور انہيں حيض آنا اور حمل ہونا بند ہو چكا ہو، اور بچہ كى پيدائش سے نا اميد ہو چكى ہوں، اس آيت سے وجہ استدلال كے متعلق حفصہ بنت سيرين كى كلام آگے بيان ہو گى.
3 – اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں سے، اور مسلمانوں كى عورتوں سے كہہ دو كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادريں لٹكا ليا كريں اس سے بہت جلد ا نكى پہچان و شناخت ہو جايا كرےگى، پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).
4 – اور اللہ جل جلالہ كا فرمان يہ بھى ہے:
اے ايمان والو! جب تك تمہيں اجازت نہ دى جائے تم نبى كے گھروں ميں كھانے كے ليے نہ جايا كرو، ايسے وقت ميں كہ پكنے كا انتظار كرتے رہو، بلكہ جب تمہيں بلايا جائے تو جاؤ، اور جب كھا كر فارغ ہو چكو تو نكل كھڑے ہو، اور وہيں باتوں ميں مشغول نہ ہو جايا كرو، نبى كو تمہارى اس بات سے تكليف ہوتى ہے، تو وہ لحاظ كر جاتے ہيں، اور اللہ تعالى ( بيان ) حق ميں كسى كا لحاظ نہيں كرتا، جب تم نبى كى بيويوں سے كوئى چيز طلب كرو تو پردے كے پيچھے سے طلب كرو، ، تمہارے اور ان كے دلوں كے ليے كامل پاكيزگى يہى ہے، نہ تمہيں يہ جائز ہے كہ تم رسول اللہ ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كو تكليف دو، اور نہ تمہيں يہ حلال ہے كہ آپ كے بعد كسى وقت بھى آپ كى بيويوں سے نكاح كرو، ( ياد ركھو ) اللہ كے نزديك يہ بہت بڑا گناہ ہے الاحزاب ( 53 ).
پردہ كے متعلق كچھ احاديث:
1 – صفيہ بنت شيبہ بيان كرتى ہيں كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہا كرتى تھيں:
" جب يہ آيت نازل ہوئى :
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں .
تو ان عورتوں نے اپنى نيچے باندھنے والى چادروں كو كناروں سے دو حصوں ميں پھاڑ ليا اور اس سے اپنے سروں اور چہروں كو ڈھانپ ليا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1448 ).
اور سنن ابو داود ميں يہ الفاظ ہيں:
" اللہ تعالى پہلى مہاجر عورتوں پر رحم كرے جب يہ آيت:
اور چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں .
نازل ہوئى تو انہوں نے اپنى چادروں كو دو حصوں ميں پھاڑ كر اپنے اوپر اوڑھ ليا "
يعنى اپنے چہرے ڈھانپ ليے.
شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور يہ حديث ان صحابيات كے متعلق صريح ہے جن كا اس ميں ذكر ہوا ہے كہ انہوں نے اس آيت:
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں .
كا يہ معنى سمجھى تھيں كہ ا سكا تقاضا يہى ہے كہ وہ اپنے چہرے ڈھانپ كر ركھيں، اور انہوں نے اپنى تہہ بند كو دو حصوں ميں پھاڑ كر اپنے اوپر اوڑھ ليا، يعنى انہوں نےاللہ تعالى كے اس فرمان:
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے اوپر اوڑھ كر ركھيں .
پر عمل كرتے ہوئے اپنے چہرے ڈھانپ ليے، اور يہ چہرہ ڈھانپنے كا مقتضى ہے، تو اس سے ايك منصف شخص يہ معلوم كر ليتا ہے كہ عورت كا مردوں سے پردہ كرنا اور چہرہ ڈھانپنا صحيح احاديث جو كہ قرآن مجيد كى تفسير كرتى ہے سے ثابت ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اللہ سبحانہ و تعالى كے اس حكم كو تسليم كرنے ميں جلدى كرنے كے بارہ ميں ان عورتوں كى تعريف كى ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ كے بغير اس آيت سے چہرہ كے پردہ كا مفہوم نہيں ليا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان ميں موجود تھے، اور دين كے متعلق انہيں جو بھى اشكال ہوتا وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتى تھيں.
اللہ جلا و علا كا فرمان ہے:
يہ ذكر ( كتاب ) ہم نے آپ كى طرف نازل كيا ہے، تا كہ لوگوں كو جانب جو نازل كيا گيا ہے اسے آپ كھول كھول كر بيان كريں .
تو يہ ممكن ہى نہيں كہ وہ اس كى تفسير اپنى جانب سے كر ليں.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
" اور ابن ابى حاتم ميں عبد اللہ بن عثمان بن خيثم عن صفيہ كے طريق سے روايت موجود ہے جو اس كى وضاحت كرتى ہے، اور اس كے الفاظ يہ ہيں:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس قريش كى عورتوں اور ان كے فضائل كا ذكر كيا گيا تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:
" بلا شبہ قريش كى عورتوں كا بہت مقام و مرتبہ ہے، ليكن اللہ كى قسم ميں نے انہيں انصار كى عورتوں سے افضل نہيں ديكھا: وہ اللہ كى كتاب كى بہت زيادہ تصديق كرنے والى تھيں، اور اللہ كى طرف سے نازل كردہ پر بہت زيادہ ايمان ركھنے والى تھيں، سورۃ النور نازل ہوئى اور اس ميں يہ آيت تھى:
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں .
تو انصارى مرد انصارى عورتوں كے پاس آئے تو نازل شدہ يہ آيت تلاوت كر رہے تھے، چنانچہ انصارى عورتوں ميں سے كوئى بھى عورت نہ بچى الا يہ كہ اس نے اپنى چادر كو اپنے اوپر اس طرح لپيٹ كر نماز ادا كرنے لگيں گويا كہ ان كے سروں پر كوے ہيں "
جيسا كہ اس كى وضاحت بخارى روايت ميں بھى ہوئى جو ابھى اوپر بيان كى گئى ہے، تو آپ ديكھتے ہيں كہ عائشہ رضى اللہ تعالى تعالى عنہا جو كہ عالمہ فاضلہ اور متقى اور فہم و فراست كى مالك تھيں نے ان انصارى عورتوں كى عظيم مدح اور تعريف كى ہے، اور يہ صراحت كى كہ يہ انہوں نے انصارى عورتوں كے علاوہ كسى اور كو اللہ كى كتاب كى زيادہ شديد تصديق، اور اس ميں نازل كردہ پر زيادہ ايمان ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، جو كہ اس كى دليل ہے كہ انہوں نے اس آيت:
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر ڈال كر ركھيں .
سے چہرہ كا پردہ كرنا لازمى سمجھا، جو كہ ا نكى جانب سے كتاب اللہ كى تصديق اور اس ميں نازل كردہ پر ايمان ہے، جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں، اور يہ اس كى صراحت ہے كہ عورتوں كا اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كرنا اور اپنے چہروں كو چھپانا كتاب اللہ كى تصديق اور نازل كردہ پر ايمان ہے، جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں.
يہ تو بہت ہى عجيب بات ہے، بلكہ تعجب ہے كہ علم كى طرف منسوب كچھ لوگ يہ دعوى كرتے ہيں كہ كتاب و سنت ميں عورت كے چہرہ كے پردہ كى كوئى دليل نہيں، حالانكہ صحابيات نے تو اللہ تعالى كے حكم كو تسليم كرتے ہوئے، اور اس ميں نازل كردہ حكم پرايمان لاتے ہوئے چہرے كا پردہ كيا.
اور يہ چيز صحيح حديث ميں ثابت ہے، جيسا كہ صحيح بخارى كى حديث اوپر بيان ہو چكى ہے، اور يہ چہرہ كے پردہ كى سب سے بڑى اور صريح دليل ہے، كہ مسلمان عورتيں چہرے كا پردہ ضرور كريں "
ديكھيں: اضواء البيان ( 6 / 594 – 595 ).
2 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ہم رات كے وقت قضائے حاجت كے ليے مناصح ( بقيع كى جانب معروف جگہ ہے ) كى جانب جاتى تھيں، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو كہتے كہ آپ اپنى بيويوں كو پردہ كرائيں، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ كرواتے، ايك رات عشاء كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجہ سودہ بنت زمعۃ رضى اللہ تعالى عنہا ـ جو كہ طويل اور لمبى عورت تھيں ـ باہر نكليں، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں آواز تھيں، سودہ ہم نے تمہيں پہچان ليا ہے، يہ آواز اس ليے دى كہ وہ حرص ركھتے تھے كہ پردہ نازل ہو جائے، تو اللہ تعالى نے حجاب يعنى پردہ والى آيت نازل كر دى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 146 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2170 ).
3 – ابن شہاب بيان كرتے ہيں كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
ميں لوگوں ميں سے پردہ كے متعلق زيادہ جانتا ہوں، ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ مجھ سے اس كے متعلق دريافت كرتے رہتے تھے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى، اور آپ كى يہ شادى مدينہ ميں ہوئى، تو آپ نے لوگوں كو دن چڑھے كھانے پر بلايا، جب لوگ چلے گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيٹھ گئے اور آپ كے ساتھ كچھ اور آدمى بھى بيٹھ گئے، حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اٹھ كر چلے تو ميں بھى ان كے ساتھ ہو ليا حتى كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے حجرہ كے دروازے پر پہنچے پھر آپ نے خيال كيا كہ لوگ چلے گئے ہيں، تو ميں بھى آپ كے ساتھ واپس آيا، ليكن آدمى ابھى تك بيٹھے ہوئے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پھر واپس ہو ليے تو ميں بھى آپ كے ساتھ دوبارہ واپس چلا گيا، حتى كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے حجرہ كے دروازے كے پاس پہنچے تو واپس پلٹ آئے اور ميں بھى آپ كے ساتھ ہى واپس آ گيا، تو لوگ اٹھ چكے تھے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے اور اپنے درميان پردہ گرا ديا، اور حجاب والى آيت نازل ہوئى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5149 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1428 ).
4 – عروہ بيان كرتے ہيں كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے بيان كيا:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر ادا كرتے تو آپ كے ساتھ مومن عورتيں بھى اپنى چادريں لپيٹ كر نماز ميں شامل ہوتيں، اور پھر وہ اپنے گھروں كو واپس ہوتى تو انہيں كوئى بھى نہيں پہچانتا تھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 365 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 645)
5 – عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں ہوتيں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1833 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2935 ) ابن خزيمہ نے ( 4 / 203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " جلباب المراۃ المسلۃ " ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
6 – اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتى ہيں كہ:
" ہمر مردوں سے اپنے چہرے ڈھانپا كرتى تھيں، اور اس سے قبل ہم احرام ميں كنگھى كيا كرتى تھيں "
ابن خزيمہ ( 4 / 203 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 624 ) حاكم نے اسے صحيح كہا ہے، اور امام ذہبى نے اس كى موافقت كى ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " جلباب المراۃ المسلۃ " ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
7 – عاصم الاحول رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہم حفصہ بنت سيرين كے پاس جاتے تو وہ اپنى چادر اس طرح كر ليتى اور ا سكا نقاب كر ليتى، تو ہم انہيں كہتے: اللہ تعالى آپ پر رحم كرے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ بوڑھى عورتيں جو نكاح كى اميد اور خواہش نہ ہو اگر وہ اپنے كپڑے ركھ ديں توان پر كوئى حرج نہيں، بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والى نہ ہوں .
عاصم كہتے ہيں: تو حفصہ بنت سيرين ہميں كہتيں: اس كے بعد اللہ تعالى نے كيا فرمايا ہے ؟:
تو ہم كہتے:
تاہم اگر ان سے بھى احتياط ركھيں تو يہ ان كے ليے افضل اور بہتر ہے .
تو حفصہ كہتى يہ پردے كا ثبوت ہے "
سنن بيہقى ( 7 / 93 ).
مزيد معلومات اور تفصيل كے ليےآپ سوال نمبر ( 6991 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات