كيا سر منڈوانا سنت ہے ؟
سر منڈوانے كا حكم
سوال: 14051
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
علماء كرام كى كلام سے اخذ يہ ہوتا ہے كہ سر منڈانے كى چھ انواع و اقسام ہيں:
پہلى قسم:
اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے سر منڈانا، اس ميں انسان كو اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور يہ صرف چار موقعوں پر ہے اس كے علاوہ پانچويں بھى نہيں وہ پانچ مقام درج ہيں:
1 – حج كے موقع پر.
2 – عمرہ كرنے كے بعد:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا اللہ تعالى نے اپنے رسول كے خواب كو سچا كر دكھايا كہ ان شاء اللہ تم يقينا پورے امن و امان كے ساتھ مسجد حرام ميں داخل ہو گے سرمنڈاتے ہوئے اور سر كے بال كترواتے ہوئے چين كے ساتھ نڈر ہو كر الفتح ( 27 ).
3 – بچے كى ولادت كے ساتويں روز بچے كا سرمنڈانا، اس كى دليل ترمذى شريف كى درج ذيل حديث ہے:
على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن رضى اللہ تعالى عنہ كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى اور فرمايا:
" اے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا ا سكا سر مونڈو، اور سر كے بالوں كے برابر چاندى صدقہ كرو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1439 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1226 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور مزيد تفصيل كے ليے ابن قيم رحمہ اللہ كى كتاب: تحفۃ المودود صفحہ نمبر ( 217 ) بھى ديكھيں.
4 – جب كافر شخص مسلمان ہو تو اپنا سر منڈائے، اس كى دليل ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك مسلمان ہونے والے كافر شخص كو فرمايا:
" تم اپنے آپ سے كفر كے بال اتارو اورختنہ كراو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 356 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور مزيد تفصيل كے ليے المغنى ابن قدامہ ( 1 / 276 ) اور شيخ الاسلام كى شرح العمدۃ ( 1 / 350 ) بھى ديكھيں.
علماء رحمہ اللہ اس پر متفق ہيں كہ ان چار مواقع كے علاوہ سر منڈانا مستحب نہيں.
ديكھيں: الاستقامۃ للشيخ الاسلام ابن تيميۃ ( 1 / 256 ).
دوسرى قسم:
شرك، سرمنڈانا اللہ تعالى كے ساتھ شرك ہوگا.
اور يہ اس وقت ہے جب غير اللہ كے ليے عاجزى و تذلل كى غرض سے سر منڈايا جائے.
ابن قيم رحمہ اللہ زاد المعاد ميں كہتے ہيں:
" جيسا كہ مريد اپنے پيروں كے ليے قسم اور حلف اٹھاتے ہوئے كہتے ہيں: ميں فلان كے ليے سر منڈاؤنگا، اور آپ نے فلاں كے ليے سر منڈايا ہے، تو يہ بالكل اسى طرح ہے جيسے كہيں كہ: ميں فلاں كے ليے سجدہ كرونگا، اس ليے كہ سر منڈانا خضوع و عاجزى و انكسارى اور عبوديت اور ذل ميں شامل ہے اسى ليے يہ حج كى تكميل ميں شامل ہوا….
كيونكہ اپنے پروردگار كے سامنے عاجزى و انكسارى اور اس كى عزت كے سامنے پيشانى كو ركھنا بليغ ترين عبوديت ميں سے ہے، اسى ليے جب عرب كسى قيدى كو ذليل كرنا چاہتے تو وہ اس كا سر مونڈ كر چھوڑ ديتے… الخ
تيسرى قسم:
بدعت مكروہہ:
يعنى سر منڈانا مكروہ بدعت ہے، اور اس كى كئى ايك صورتيں ہيں:
ان چار مواقع كے علاوہ تعبد اور تدين كے طور پر سر منڈانا، مثلا اگر سر منڈانا صالحين كى نشانى بنا دى جائے، يا پھر زہد كے اتمام ميں شامل ہو، اور يہ بالكل ايسے ہى جيسے خوارج كيا كرتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نشانيوں كے بارہ وارد ہے كہ آپ نے فرمايا:
" ان كى علامت سر منڈانا ہو گى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7007 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1763 ).
امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ صلى اللہ عليہ وسلم:
" ان كى علامت سر منڈانا ہو گى "
يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دنيا كى زينت اور بناؤ سنگھار ترك كرنے كى بنا پر ان كى يہ علامت قرار دى، اور ان كا شعار قرار ديا تا كہ وہ اس كے ساتھ پہچانے جائيں، اور يہ ان كى جہالت ہے…. اور اللہ كے دين ميں نئى چيز اور بدعت ہے جو نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور نہ ہى خلفاء راشدين اور ان كے اتباع ميں پائى جاتى تھى "
ديكھيں: شرح العمدۃ ( 1 / 231 ) اور مجموع الفتاوى ( 21 / 118 ).
اور يہ بھى اس ميں شامل ہے كہ: بعض لوگ توبہ كرنے والے كے معاملہ ميں اس سر منڈانا بھى شامل كرتے ہيں، جو كہ بدعت ہے، نہ تو صحابہ كرام ميں سے كسى نے ايسا كيا، اور نہ ہى تابعين عظام ميں سے كسى نے كيا، اور نہ ہى مسلمان آئمہ كرام ميں سے كسى أيك نے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 118 ).
چوتھى قسم:
يہ حرام ہے، اور اس كى كئى ايك صورتيں ہيں:
1 – كسى قريبى رشتہ دار وغيرہ كى موت كى مصيبت كےوقت سر منڈانا.
ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" بلا شبہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مصيبت كے وقت آہ و بكا كرنے والى، اور مصيبت كے وقت سر منڈانے والى، اور مصيبت كے وقت كپڑے پھاڑنے والى سے برى ہيں "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 149 ).
الحالقۃ وہ عورت ہے جو مصيبت كے وقت اپنے بال منڈوائے.
الصالقۃ: وہ عورت جو مصيبت كے وقت مختلف قسم كى آوازيں بلند كرے.
اور الشاقۃ: وہ عورت جو مصيبت كے وقت اپنے كپڑے پھاڑے.
ابن حجر رحمہ اللہ نے " الزواجر عن اقتراف الكبائر " ميں ذكر كيا ہے كہ:
" ايك سو سترواں ( 117 ) كبيرہ گناہ يہ ہے كہ: مصيبت كے وقت بال منڈائے جائيں.
ان كا كہنا ہے: كيونكہ يہ ناراضگى كى علامت اور شعار ظاہر كر رہا ہے، اور تقدير پر عدم رضا كى علامت ہے . اھـ
2 – كفار يا فاسق قسم كے افراد جو اپنا سر منڈانے ميں مشہور ہيں كے ساتھ مشابہت كرتے ہوئے سر منڈايا جائے، اور بعض اوقات وہ اس پر كوئى معين تيل لگاتا ہے تا كہ وہ بھى ان كى طرح لگے، يا پھر سر كے دونوں جانبوں سے بال چھوٹے، اور درميان سے لمبے كروائے، تو يہ سب مشابہت حرام ہے، اور سيدھى راہ سے انحراف ہے، اللہ تعالى سے ہم سلامتى و عافيت طلب كرتے ہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:
" جو كوئى بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرتا ہے تو وہ انہي ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
القارى رحمہ اللہ كہتےہيں:
" يعنى جس نے بھى اپنے آپ كو كفار يا فاسق يا فاجر لوگوں كے مشابہ بنايا تو وہ انہى ميں سے ہے " يعنى گناہ ميں ان كى طرح ہے.اھـ
پانچويں قسم:
مباح ہے، وہ يہ كہ كسى ضرورت كے پيش نظر سر منڈايا جائے، مثلا بيمارى سے علاج كے ليے، يا پھر جوئيں وغيرہ ختم كرنے كے ليے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كتاب و سنت اور اجماع كے ساتھ يہ جائز ہے " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 12 / 117 ).
چھٹى قسم:
بغير كسى ضرورت و حاجت اور مندرجہ بالا اسباب كے بغير سر منڈايا جائے.
اس كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء كرام تو اسےمكروہ سمجھتے ہيں، يعنى امام مالك رحمہ اللہ ان كى دليل يہ ہے كہ يہ اہل بدعت يعنى خوارج كى علامت ہے جيسا كہ مندرجہ بالا حديث ميں بيان ہوا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:
" جس كسى نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
اور بعض علماء كرام اسے مباح قرار ديتے ہيں، انہوں نے درج ذيل احاديث سے استدلال كيا ہے:
ابو داود رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جعفر رضى اللہ تعالى عنہ كى موت كے تين روز بعد آل جعفر بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس تشريف لائے، اور نائى كو بلا كر حكم ديا كہ وہ جعفر كے بيٹوں كے سر مونڈ دے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4192 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو حديث نمبر ( 3532 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك بچے كو ديكھا كہ اس كے سر كا كچھ حصہ مونڈا ہوا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" سارا سر مونڈو يا پھر سارا چھوڑ دو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4195 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ا بو داود حديث نمبر ( 3535 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، ليكن ان دونوں احاديث سے بغير كسى ضرورت كے سر مونڈنے كے جواز پر استدلال كرنا محل نظر ہے:
اول:
كيونكہ يہاں كسى ضرورت كى بنا پر سر مونڈا گيا ہے، تو اس طرح يہ مباح ہو گا، اور يہاں ضرورت و حاجت يہ ہے كہ بچوں كے سر ميں بڑوں كى بنسبت جوئيں پڑنے كا زيادہ احتمال ہوتا ہے، كيونكہ ان كے سروں ميں رطوبت و مٹى اور گرد زيادہ پڑتى ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 159 ).
دوم:
يہ چھوٹے بچے كے حق ميں ہے، اور بچے كے ليے اس كى اجازت ہے جو بڑے كے ليے اجازت نہيں.
ديكھيں: حاشيۃ السندى على النسائى. اور مجموع الفتاوى ( 21 / 119 ) اور شرح العمدۃ ( 1 / 230 ).
اس پانچويں قسم ميں يہ اختلاف اس ليے ہے كہ آيا سر منڈانا مكروہ ہے يا كہ مباح، يا كہ افضل ؟
تو افضل يہ ہے كہ سر نہ منڈايا جائے، الفاوى رحمہ اللہ كہتے ہيں: افضل يہ ہے كہ عمرہ اور حج كے علاوہ سر نہ منڈايا جائے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كيا كرتے تھے. اھـ
ماخوذ از: عون العبود ( 11 / 248 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد