میری شادی کو ایک سال ہوا ہے، میرے خاوند نے شادی سے پہلے شرط لگائی تھی کہ اسکی نانی کی بیٹی جو کہ عمر رسیدہ ہے ہمارے ساتھ رہے گی، میں نے اس پر ہامی بھر لی، شادی کے بعد مجھے پتہ چلاکہ وہ گھر کے آدھے سامان کی مالک بھی ہے، اور مجھے کسی چیز کو حرکت دینے کی بھی اجازت نہیں، اسکے ساتھ ساتھ مجھے اس کی جانب سے ہمہ قسم کی گالی گلوچ بھی سننی پڑتی ہیں، میرے خاوند کو جو چاہے بکتی ہے، جبکہ میرا خاوند اسے کچھ نہیں کہتا، حتی کہ اس نے مجھے یہ تک کہہ دیا : میرا والدحرام زادہ ہے! اور میں بے ادب ہوں! اس لئے کہ میں خاوند کو کام پر جاتے وقت دروازے تک الوداع کرتی ہوں، میں نے اپنے گھر رابطہ کیا، اور وہ مجھے آکر لے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مجھے حق حاصل ہےکہ میں اپنے خاوند سے علیحدہ رہائش کا مطالبہ کروں؟ اور اس عورت کے ہمارے ساتھ رہائش پذیر ہونے کا کیا حکم ہے؟
پہلے بیوی خاوند کی عزیزہ کیساتھ رہائش کی شرط کا اقرار کر لے ، تو کیا اسکے بعد عزیزہ کے تنگ کرنے کی وجہ سے یہ شرط ختم ہوجائے گی؟
سوال: 141092
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پہلی بات:
اللہ تعالی نے ہر خاوند پر بیوی کیلئے شرعی رہائش کا بندوبست کرنا واجب قرار دیا ہے، جہاں تمام ضروریات زندگی کا اہتمام ہو، رہائش کی اہم شرائط میں یہ شامل ہے کہ اپنے اہل خانہ میں سے کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ نہ ٹھہرائے۔ آپ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (7653) کے جواب کو ملاحظہ کریں۔
دوسری بات:
خاوند کیلئے ضروری ہے کہ اپنی بیوی کا حق ادا کرنے کیلئے اسے ایسی رہائش دے جہاں اسکے علاوہ کوئی نہ رہے، خاوند کے اپنے اہل خانہ بھی وہاں نہ رہیں، اور اگر خاوند نے کسی فرد کے ساتھ رہنے کی شرط لگائی اور بیوی نے اسے قبول کیا تو شرط اس پر لازم ہوجائے گی، اور علیحدہ رہائش کا حق ساقط ہو جائے گا، اور اسے شرط پوری کرنی ہوگی۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
شرائط کیلئے اصل یہ ہے کہ یہ جائز اور ٹھیک ہوتی ہیں، چاہے وہ نکاح ، خریدو فروخت ، اجارہ، رہن، یا وقف، سے تعلق رکھتی ہوں، کسی بھی معاہدے میں لگائی جانے والی شرائط صحیح ہوں تو اسکو پورا کرنا واجب ہےخاص طور پر نکاح میں ، اس لئے کہ فرمانِ باری تعالی عام ہے: ( يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ) المائدة/ 1 ترجمہ:” اے ایمان والو! اپنے معاہدوں کو پورا کرو ” معاہدے کی پاسداری کیلئے معاہدہ اور اس ضمن میں آنیوالی تمام شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے، اس لئے کہ یہ سب کچھ معاہدے میں شامل ہے۔ “شرح الممتع علی زاد المستقنع” (12/164)۔
اس بنا پر: سائلہ پر واجب ہے کہ شرط کو پورا کرے، اور اپنے خاوند کی نانی کی بیٹی کے ساتھ رہائش پر راضی رہے کیونکہ عقد سے پہلے شرط انہوں نے قبول کر لی تھی۔
تیسری بات:
شرائط مندرجہ ذیل صورتوں میں ساقط ہو جائیں گیں، اور کسی صورت میں انکو پورا نہیں کیا جائے گا۔
1- شرط لگانے والا خود شرط ختم کردے، اور وہ آپکا خاوند ہے، اگر وہ ختم کر دے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے انہوں نے لگائی ہی نہیں۔ شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: کسی بھی چیز کی شرائط جو شریعت نے مقرر کی ہیں، انہیں ساقط کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں جبکہ انسان کی طرف سے لگائی گئی شرائط کو ساقط کرنے کا حق اُسی کو حاصل ہے جس نے لگائی ہیں۔ “الشرح الممتع علی زاد المستقنع” (5/25)
2- جسکے ساتھ رہنے کی رضا مندی آپ نے ظاہر کی اُس سے آپکو ضرر لاحق ہو، مثلا خاوند کا رشتہ دار بالغ ہو جائے، یا اتنا بد اخلاق ہو کہ آپکے پردے کا خیال نہ رکھے، یا آپکو گالی گلوچ کا نشانہ بنائے، آپکو حقارت کی نگاہ سے دیکھے، یا مارے۔
موجودہ صورتِ حال میں کہ خاوند نے اپنی شرط ختم نہیں کی تو آپ کے سامنے ایک اور راستہ ہے ، لیکن اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہوگی، چنانچہ اگر آپ ثابت کر دیں تو آپ اُس خاتوں کو اپنے مکان سے نکالنے کا حق رکھتی ہیں، یا آپ کسی دوسرے مکان میں رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔
“موسوعۃ فقہیۃ کویتیۃ (25/109) میں ہے:
“والدین اور بیوی کو ایک رہائش پر جمع کرنا درست نہیں اور یہی حکم دیگر اقارب کا ہے ، اس لئے بیوی خاوند کے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ رہائش کا انکا ر بھی کرسکتی ہے، اس لئے کہ علیحدہ رہائش کی وجہ سے وہ اپنے نفس، مال، اور حق کے بارے میں زیادہ مطمئن رہ سکتی ہے، اس لئے کسی کو بیوی پر اس معاملے میں جبر کرنے کی اجازت نہیں”
یہ ہی موقف جمہور حنفی، شافعی اور حنبلی علماء کا ہے۔
ہاں اگر خاوند نے بیوی پر والدین کے ساتھ رہائش کی شرط رکھی ، اور بیوی نے انکے ساتھ رہائش اختیار کرلی ، اب بعد میں اسے -مالکی علماء -کے نزدیک علیحدہ رہائش کے مطالبہ کا حق نہیں ہے، الّا کہ والدین کے ساتھ رہائش پر ضرر ثابت ہو جائے۔
یہ تو تھی مکمل مسئلہ کی وضاحت، اور اب آتے ہیں آپکی موجودہ صورتِ حال کے حل کی جانب، اس مسئلہ کا حل صرف زبان سے ممکن نہیں، اسکے لئے دو طرفہ جد و جہد کی ضرورت ہے، چنانچہ اگر خاوندآپ دونوں کے مابین صلح ، یا ازدواجی زندگی کیلئے مناسب رہائش میسر کرنے سے قاصر ہو تو اس پر واجب ہے کہ آپ دونوں کو ایک جگہ مت رکھے، اگر خاوند یہ نہ کرے، تو درمیان میں کسی کو ثالثی بنا لیں جو آپ کیلئے درمیانی راستہ تلاش کر سکے، اور خاوند کو سمجھائے کہ اپنے گھر کو سنبھالتے ہوئے تمہارے لئے یا اپنی عزیزہ کیلئے علیحدہ اور قریب مکان کرایہ پر حاصل کرلے،تاکہ خاوند کو اپنی بوڑھی عزیزہ کی دیکھ بھال ، اور اپنے گھر کی ضروریات پوری کرنے میں آسانی رہے، اگر خاوند یہ بھی نہ کرے ، اور آپ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہو تو آخری حل یہ ہے کہ آپ قانونی چارہ جوئی کا سہارا لے سکتی ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ دونوں میں صلح کروائے ، اور اس معاملے میں آپکی راہنمائی بھی کرے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات