ميں آپ كى اس ويب سائٹ تك پہنچ كر بہت خوش ہوں، ميں مسلمان گھرانے ميں پيدا ہوا اور بلوغت كے بعد بہت سى اسلامى تعليم حاصل كى، اور دينى امور كو سمجھنے اور سميٹنے كى كوشش كر رہا ہوں.
ميں نے ارتداد كے متعلقہ آپ كے بعض جوابات كا مطالعہ كيا ہے كہ مرتد كى سزا قتل ہے، ليكن ميں نے ايك اور ويب سائٹ پر پڑھا ہے كہ اس مرتد كو قتل كيا جائے گا جو دين كے خلاف جنگ كرنے كا موقف ركھے، اور ميرا ميلان بھى دوسرى رائے كى طرف زيادہ ہے.
اس كا سبب يہ ہے كہ ميرے كچھ دوست ہيں جو اسلامى گھرانوں ميں پيدا ہوئے اور ان كے نام بھى اسلامى ہيں، ليكن ان ميں سے بعض كو يہ علم بھى نہيں كہ وضوء كس طرح كيا جاتا ہے، اور نماز كيسے ادا كرنى ہے، ليكن انہيں كلمہ طيبہ كا علم ہے.
تو كيا ہم ان كو مرتد شمار كريں گے، اور انہيں قتل كرينگے ؟
ارتداد اور مرتد كے بعض احكام
سوال: 14231
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان كو چاہيے كہ وہ اپنى عقل اور خواہش كى بنا پر كسى ايك قول كى طرف مائل نہ ہو اور دوسرے قول كى چھوڑ دے، بلكہ وہ حكم كو كتاب اللہ اور سنت رسول كى دليل كے ساتھ لے، اور نصوص شرعيہ اور شرعى احكام كو ہر چيز پر مقدم كرنا ضرورى ہے.
دوم:
بعض اوقات دل يا زبان، يا عمل كے ساتھ بھى دين اسلام سے خارج اور مرتد ہو جاتا ہے.
بعض اوقات دل كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جس طرح كہ اللہ تعالى كى تكذيب كرنا، يا يہ اعتقاد ركھنا كہ اللہ عزوجل كے ساتھ كوئى اور بھى خالق ہے، يا اللہ تعالى يا اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بغض ركھنا.
اور بعض اوقات زبان سے قول كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جيسے كہ اللہ تعالى يا اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ( نعوذ باللہ ) سب و شتم كرنا.
اور بعض اوقات ظاہرى اعظاء كے عمل كے ساتھ ارتداد ہوتا ہے، جيسا كہ بتوں كو سجدہ كرنا، يا قرآن مجيد كى توہين كرنا، يا نماز ترك كردينا.
اور مرتد انسان اصلى كافر سے زيادہ برا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى اتحادى باطنى فرقہ كے رد ميں كہتے ہيں:
" يہ تو معلوم ہے كہ تتارى كفار ان مرتدوں سے بہتر اور اچھے ہيں، جو دين اسلام سے مرتد ہونے والوں ميں سے سب سے بدترين مرتد ہيں، اور مرتد اصلى كافر سے بھى كئى ايك وجوہات كى بنا پر زيادہ برا اور شرير ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن تيميۃ ( 2 / 193 ).
سوم:
ہر مسلمان جو كفريہ كام كرلے وہ كافر اور مرتد نہيں ہوتا، كچھ عذر ايسے ہيں جن كى بنا پر مسلمان معذور ہے، اور اس پر كافر كا حكم نہيں لگتا ان عذروں ميں سے كچھ درج ذيل ہيں:
جہالت، تاويل، جبر، خطاء
پہلا عذر:
جہالت: يہ كہ آدمى اسلامى ممالك سے دور رہنے كى بنا پر اللہ تعالى كے حكم سے جاہل ہو، مثلا وہ شخص جو گاؤں ميں پرورش پائے يا كفار كے ممالك ميں يا پھر جاہليت كے دور كے قريب ہو اور نيا مسلمان ہوا ہو، اس ميں كئى مسلمان بھى داخل ہو سكتے ہيں جو ايسے معاشروں ميں رہائش پذير ہيں جو جہالت ميں ڈوبے ہوئے ہيں، اور وہاں علم كى كمى ہے، اور وہى ہيں جن كے بارہ ميں سائل كو ان كےكفر اور قتل ميں اشكال پيدا ہوا ہے.
دوسرا عذر: تاويل
وہ يہ كہ كوئى شخص اللہ تعالى كے حكم كى تفسير غير شرعى مراد ميں كرے، مثلا وہ شخص جو بدعتى لوگوں كى ان مسائل ميں تقليد كرنا جن ميں انہوں نے تاويل كى ہے، مثلا مرجئہ اور معتزلہ، اور خوارج وغيرہ
تيسرا عذر: جبر كرنا:
جيسا كہ اگر كوئى ظالم شخص كسى مسلمان شخص پر مسلط ہو جائے اور اسے تكليف اور عذاب دے اور صريح كفريہ كلمہ كہے بغير نہ چھوڑے، تو وہ اس مصيبت سے جان چھڑانے كے ليے اپنى زبان سے كفريہ كلمہ تو كہہ رہا ہو ليكن اس كا دل ايمان پر مطمئن ہو.
چوتھا عذر: خطاء اور غطلى:
بغير كسى قصد اور ارادہ كے زبان سے سے كفريہ لفظ نكل جائے.
اور ہر وہ شخص جو وضوء كے طريقہ سے جاہل ہو، يا نماز كے طريقہ سے جاہل ہے يہ ممكن نہيں كہ وہ اس ميں معذور ہو، حالانكہ وہ مسلمانوں كو نماز ادا كرتے ہوئے ديكھتا ہے، پھر وہ نماز كى آيات پڑھتا اور سنتا بھى ہے، تو كونسا ايسا مانع ہے جو اسے نماز ادا كرنے سے منع كر رہا ہے يا پھر اس كى كيفيت اور شروط كے بارہ ميں سوال كرنے سے روك رہا ہے؟
چہارم:
مرتد كو ارتداد كے فورا بعد قتل نہيں كيا جائےگا، اور خاص كر جب اسكے ارتداد كا باعث اسے پيش آنے والا كوئى شبہ اور اشكال ہو، بلكہ اسے ارتداد كے بعد توبہ كروائى جائے گى اور كہا جائے كہ توبہ كرلو، اور اسے اسلام كى طرف واپس پلٹنے كى پيشكش كى جائے گى، اور اس كا شبہ اور اشكال زائل اور دور كيا جائے گا، اور اگر وہ اس كے بعد پھر بھى كفر پر اصرار كرے تو اسے قتل كر ديا جائے گا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى اپنى كتاب " المغنى " ميں كہتے ہيں:
مرتد كو اس وقت تك قتل نہيں كيا جائے گا جب تك كہ اس سے تين بار توبہ طلب نہ كى جائے، اكثر علماء كا قول يہى ہے، جن ميں عمر، على رضى اللہ تعالى عنہما اور عطاء، النخعى، امام مالك، الثورى، اوزاعى، اسحاق، اور اصحاب الرائے رحمہم اللہ شامل ہيں….
كيونكہ ارتداد كسى شبہہ اور اشكال كى بنا پر ہوگا، اور وہ شبہہ اسى وقت زائل نہيں ہو سكتا اس ليے اتنى مدت انتظار كرنا ضرورى ہے جس ميں وہ ممطئن ہو سكے، اور يہ مدت تين يوم ہے. اھـ
ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 9 / 18 ).
سنت صحيحہ مرتد كے قتل پر دلالت كرتى ہے:
بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو اپنا دين بدل لے اسے قتل كردو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6922 ).
عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى ايسے مسلمان كا خون حلال نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں اور ميں اللہ تعالى كا رسول ہوں، ليكن تين وجوہ ميں سے ايك كى بنا پر: قتل كے بدلے قتل، شادى شدہ زانى ، اور اپنے دين كو ترك كركے جماعت سے عليحدہ ہونے والا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6486 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1676 )
ان احاديث كا عموم مرتد كے قتل پر دلالت كرتا ہے، چاہے وہ محارب ہو يا غير محارب، يعنى دين كے خلاف جنگ كرے يا نہ كرے.
اور يہ قول كہ: اس مرتد كو قتل كيا جائے گا جو دين كے خلاف لڑنے والا يعنى محارب ہو يہ احاديث كے خلاف ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اس كے قتل كا سبب ارتداد بنايا ہے نہ كہ دين كے خلاف محاربہ.
اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ ارتداد كى بعض اقسام اور انواع ايك دوسرے سے زيادہ قبيح اور شنيع ہوتى ہيں، محارب كا ارتداد دوسرے مرتد سے زيادہ قبيح ہے، اور اسى ليے علماء كرام نے ان كے مابين فرق كيا ہے، اور محارب مرتد كے ليے توبہ كى شرط نہيں ركھى اور نہ ہى اس كى توبہ قبول ہوتى ہے، بلكہ اگر وہ توبہ بھى كر لے تو اسے قتل كر ديا جائے گا.
ليكن اگر وہ مرتد محارب نہيں تو اس كى توبہ قبول ہو گى اور اسے قتل نہيں كيا جائے گا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے اسے ہى اختيار كيا ہے.
شيخ الاسلام ابن رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:
ارتداد كى دو قسميں ہيں:
صرف ارتداد، اور ارتداد مغلظ اس كى بنا پر شريعت نے قتل مشروع كيا ہے، اور ان دونوں كى بنا پر قتل كرنے كى دليل موجود ہے.
اور توبہ كى بنا پر قتل ساقط ہونا ان دونوں قسموں كو عام نہيں، بلكہ پہلى قسم صرف ارتداد كو شامل ہے، جيسا كہ مرتد كى توبہ قبول كرنے كے دلائل پر تدبر اور غور وفكر كرنے والے كے ليے ظاہر ہوتا ہے.
اور باقى رہى دوسرى قسم يعنى ارتداد مغلظ ـ اس مرتد كو قتل كرنے كے وجوب پر دليل پائى جاتى ہے، اور كوئى نص اور اجماع نہيں ملتا جو اس سے قتل كو ساقط كرتى ہو، اور ظاہر اور صاف فرق ہونے كى بنا پر اس ميں قياس كرنا ممكن نہيں، لہذا الحاق نہيں ہو سكتا.
اور اس طريقہ كو ثابت كرتا ہے وہ يہ كہ كتاب اللہ اور نہ ہى سنت نبويہ اور اجماع ميں يہ نہيں آيا كہ جو شخص بھى كسى قول يا كسى فعل كى بنا پر مرتد ہو جب وہ پكڑے جانے كے بعد توبہ كر لے تو اس سے قتل ساقط ہو جاتا ہے، بلكہ كتاب اللہ اور سنت نے تو مرتد كى دونوں قسموں ميں فرق كيا ہے….
ديكھيں: الصارم المسلول على شاتم الرسول ( 3 / 696 ).
اور حلاج مشہور زنديقوں ميں سے تھا جسے بغير كسى توبہ طلب كيے قتل كيا گيا تھا: قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مقتدر جو مالكيہ ميں تھا كے دور ميں بغداد كے فقھاء كرام نے حلاج كے قتل اور سولى پر لٹكانے پر اتفاق كيا كيونكہ حلاج نے الوہيت كا دعوى كيا تھا، اور حلول كا قائل تھا، اور اس كا قول ہے: " انا الحق" ميں حق ہوں، حالانكہ وہ ظاہرى طور پر شريعت پر عمل كرتا تھا، اور انہوں نے اس كى توبہ قبول نہيں كى.
ديكھيں: الشفا بتعريف حقوق المصطفى ( 2 / 1091 ).
اس بنا پر يہ متعين ہوا كہ سائل نے جو يہ كہا ہے كہ مرتد كو اس وقت قتل كيا جائے گا جب وہ دين كے خلاف جنگ كرے يعنى محارب دين ہو، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے جو فرق ہم نے بيان كيا ہے اميد ہے اس سے اشكال دور ہو جائےگا اور مراد كى وضاحت ہو گى.
اور دين كے خلاف جنگ صرف اسلحہ كے ساتھ ہى محصور نہيں بلكہ زبانى جنگ بھى ہوتى ہے، مثلا: اسلام يا نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم، يا قرآن مجيد ميں طعن، وغيرہ كرنا، بلكہ بعض اوقات تو زبانى جنگ اسلحہ كى جنگ سے بھى زيادہ شديد ہوتى ہے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
محاربہ اور جنگ كرنے كى دو قسميں ہيں:
ہاتھ كے ساتھ اور زبان كے ساتھ:
دين كے بارہ ميں زبانى جنگ بعض اوقات ہاتھ كے ساتھ جنگ كرنے سے زيادہ سخت ہوتى ہے، جيسا كہ پہلے مسئلہ ميں اس كا بيان گزر چكا ہے، اور اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم زبانى جنگ كرنے والے كو قتل كرتے تھے اور ہاتھ كے ساتھ جنگ كرنے والوں ميں سے بعض كو قتل نہيں كيا.
خاص كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے بعد ان كے ساتھ تو صرف زبانى جنگ ممكن ہے، اور اسى طرح بعض اوقات ہاتھ كے ساتھ بھى فساد ہوتا ہے، اور بعض اوقات زبان كے ساتھ، اور مختلف اديان ميں جو فساد زبان كے ذريعہ ہوا ہے وہ ہاتھ كے فساد سے كئى گناہ زيادہ ہے، جيسا كہ اديان ميں جو اصلاح زبان كے ساتھ ہوئى ہے وہ ہاتھ كےساتھ اصلاح سے كئى گنا زيادہ ہے تو اس سے يہ ثابت ہوا كہ زبان كے ساتھ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كرنا زيادہ شديد ہے، اور زمين ميں زبان كے ساتھ فساد مچانے كى كوشش كرنا زيادہ يقينى ہے.
ديكھيں: الصارم المسلول على شاتم الرسول ( 3 / 735 ).
پنجم:
اور رہا مسئلہ نماز ترك كرنا: تو اس كے بارہ ميں صحيح يہى ہے كہ تارك نماز كافر اور مرتد ہے.
مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 5208 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات