چار برس تك ميرا عقد نكاح رہا، اور اس دوران ہم نے شرعى خلوت ( يعنى دخول ) بھى كى، اور اس كے بعد اختلاف پيدا ہو گئے اور طلاق ہو گئى، اور طلاق كے دوران مہر سے دستبردارى كا اعلان كيا گيا.
جب شرعى قاضى نے خاوند اور بيوى كو شرعى خلوت كے متعلق پوچھا تو دونوں نے انكار كيا، كيونكہ لڑكى كے گھر والے بھى موجود تھے؛ يہ علم ميں رہے كہ يہ خلوت لڑكى كى موافقت سے ہوئى تھى ليكن لڑكى كے گھر والوں كو اس كا علم نہ تھا.
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا دونوں اطراف سے موافقت كے بعد قاضى كے سامنے جھوٹ بولنے كے بعد طلاق واقع ہوئى ہے يا نہيں، اور اس كے نتيجہ ميں خاوند پر كيا مرتب ہوتا ہے، برائے مہربانى مجھے اس كے بارہ ميں جواب ديں ؟
دخول كے بعد طلاق دى ليكن عدالت ميں جھوٹ بولا
سوال: 143076
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
طلاق سے قبل شرعى خلوت كا ہونا يا نہ ہونے كا طلاق واقع ہونے سے كوئى تعلق نہيں، كيونكہ طلاق تو ہر حالت ميں واقع ہو گى، اور اس كے متعلق قاضى كے سامنے جھوٹ بولنے كا طلاق واقع ہونے پر كوئى اثر نہيں ہوگا، ليكن جھوٹ بولنے والے كو گناہ ضرور ہے.
بلكہ قاضى نے تو شرعى خلوت كے بارہ ميں اس ليے دريافت كيا تھا كہ خلوت ہونے كى نتيجہ ميں طلاق شدہ عورت كے حقوق و اجبات زيادہ بنتے ہيں.
اس پر دو چيزيں مرتب ہوتى ہيں:
پہلى:
جب طلاق دخول يا صحيح خلوت كے بعد طلاق دى جائے تو بيوى كو پورا مہر لينے كا استحقاق ہے.
ليكن اگر صحيح خلوت سے پہلے ہى طلاق ہو جائے تو پھر عورت نصف مہر كى مستحق ٹھرتى ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر تم انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو اور تم نے ان كا مہر مقرر كر ديا ہے تو جتنا مہر مقرر كيا گيا ہے انہيں اس كا نصف مہر ديا جائيگا، الا يہ كہ وہ خود معاف كر ديں، يا پھر وہ جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے وہ معاف كر دے، اور يہ كہ تم معاف كر دو يہ تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور تم آپس ميں فضيلت اور بزرگى كو فراموش نہ كرو، يقينا اللہ تعالى جو تم عمل كرنے والے ہو وہ ديكھ رہا ہے .
تفصيلى بيان آپ سوال نمبر (97229 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
دوسرى:
اگر دخول يا صحيح خلوت كے بعد طلاق ہوئى ہو تو عورت پر شرعى عدت گزارنا واجب ہے.
ليكن دخول يا صحيح خلوت سے قبل عدت واجب نہيں ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر انہيں چھونے ( جماع ) سے قبل طلاق دے دو تو ان پر كوئى عدت نہيں جسے وہ شمار كريں .
آپ نے جو بيان كيا ہے اس كى بنا پر يہ ثابت ہوتا ہے كہ: عورت پورے مہر كى مستحق ہے، اور اس پر تين حيض شرعى عدت گزارنا واجب ہو گى.
اس ليے كہ عورت مہر سے دستبردار ہو چكى ہے چنانچہ اس حالت ميں عورت پر اہم چيز شرعى عدت گزارنا واجب ہے، اس ليے وہ نہ ت واس عدت كے دوران منگنى كر سكتى ہے اور نہ ہى شادى كر سكتى ہے.
بلاشك و شبہ رخصتى سے قبل لڑكى كى بكارت اور كنوارہ پن ختم ہو جانا لڑكى كے گھر والوں كے ليے بہت بڑى پريشانى كا باعث ہے، اسى ليے علماء كرام نے عقد نكاح كرنے والے شخص كو يہ تاكيد كى ہے كہ جب عورت ابھى اپنے گھر ميں ہى اور اس كى رخصتى نہ ہوئى ہو تو اس سے جماع نہ كرے؛ كيونكہ اس ميں بہت خرابياں پيدا ہوتى ہيں.
سوال ميں جو بيان ہوا ہے وہ اس كى مثال ہے كہ نكاح كرنے والے شخص نے رخصتى سے قبل بيوى سے جماع كر ليا تو اس پر كيا خرابى مرتب ہوئى ہے، اور پھر اس ميں ايك اور يہ پريشانى بھى ہوتى ہے كہ جب لڑكى كا دوسرا نكاح ہو گا تو كيا اس كا نكاح كنوارى ہونے كى حالت ميں ہوگا، جيسا كہ اس لڑكى كى ظاہرى حالت ہے، يا كہ وہ كنوارى نہيں، جيسا كہ حقيقت ہے؟ اور اگر اس كے دوسرے خاوند كو پتہ چل گيا كہ وہ تو كنوارى نہ تھى ؟
اس ليے ايسے عمل سے جس ميں پريشانى اور شك پيدا ہونے كا خدشہ ہو سے دور رہنا ہى بہتر ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات