كيا شادى شدہ زانى كو پتھروں سے رجم كرنے كى بجائے تلوار يا گولى كے ذريعہ قتل كرنا جائز ہے ؟
زانى كو رجم كے بدلے كسى اور طريقہ سے قتل كرنا جائز نہيں
سوال: 14312
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
واجب تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرتے ہوئے مكلف شادى شدہ زانى كو پتھر مار مار كر سنگسار اور رجم كيا جائے حتى كہ وہ مرجائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول اور فعل سے ايسا كرنا ثابت ہے.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز اسلمى اور جھينى قبيلہ كى عورت اور غامدى قبيلہ كى عورت اور دو يہوديوں كو مدينہ ميں رجم كيا تھا، اس كا ثبوت صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے، اور صحابہ كرام، اور تابعين عظام، اور ان كے بعد اہل علم كا اس پر اجماع ہے، اس ميں كسى نے بھى مخالفت نہيں كى، صرف چند ايك لوگ اس كے مخالف ہيں جن كى مخالفت كا كوئى وزن نہيں.
امام بخارى اور مسلم نے اپنى صحيحين ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے وہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:
” بلا شبہ اللہ سبحانہ وتعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حق دے كر مبعوث فرمايا، اور ان پر كتاب نازل كى، تو اللہ تعالى كے نازل كردہ ميں رجم كى آيت بھى تھى، ہم نے اسے پڑھا، اور اسے سمجھا اور اچھى طرح حفظ و ياد بھى كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رجم و سنگسار كيا، اور ان كے بعد ہم نے بھى رجم كيا، مجھے خدشہ ہے كہ اگر لوگوں پر لمبا وقت گزر گيا تو كوئى كہنے والا يہ نہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ہم تو كتاب اللہ ميں رجم كى آيت نہيں پاتے، تو وہ اللہ تعالى كا نازل كردہ فريضہ ترك كرنے كى بنا پر گمراہ ہو جائينگے، اور اللہ تعالى كى كتاب ميں شادى شدہ زانى مرد و عورت كو رجم كرنا حق ہے، جب اس زنا كى گواہى مل جائے، يا پھر حمل ہو يا اعتراف كر ليا جائے …. ” الخ
اور اس بنا پر رجم كى سزا كو تلوار يا گولى مار كر قتل كرنا جائز نہيں، كيونكہ رجم كرنے ميں بہت زيادہ عبرت ہے، اور اس طرح زنا جيسے فحش كام جو كہ شرك اور اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس و جان كو قتل كے بعد سب سے عظيم گناہ ہے روكا جا سكتا ہے.
اور اس ليے بھى كہ شادى شدہ زانى كو رجم كرنے كى حد توقيفى امور ميں شامل ہوتى ہے، جس ميں اجتھاد اور رائے كى كوئى گنجائش ہى نہيں اور اگر تلوار يا گولى كے ساتھ شادى شدہ زانى كو قتل كرنا جائز ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ضرور كرتے، اور اپنى امت كے ليے بھى اسے بيان فرماتے، اور ان كے بعد صحابہ كرام بھى ايسا ضرور كرتے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 48 )