بغلوں اور زير ناف بال صاف كرنا فطرتى سنت ميں شامل ہے، تو كيا عورت سے ہاتھوں اور ٹانگوں كے بال صاف كرنا بھى مطلوب ہيں، يہ علم ميں رہے كہ ايسا كرنا عورت كے ليے باعث مشقت اور تكليف ہے، اور اگر خاوند بيوى سے ايسا كرنے كا مطالبہ كرے اور بيوى اس سے انكار كرے كيونكہ اس ميں اسے تكليف اور درد ہوتى ہے، اور پھر اس كے ليے خاصا وقت بھى دركار ہے، چنانچہ اس سلسلہ ميں دين كى رائے كيا ہے، اور كيا عورت اس كے ليے سہولت كے ساتھ باربر شاپ پر جا سكتى ہے ؟
خاوند ہاتھ اور ٹانگوں كے بال صاف كرنے كا كہتا ہے
سوال: 14380
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہاتھوں اور ٹانگوں كے بالوں كے متعلق شريعت نے سكوت اختيار كيا ہے، اور جس سے شريعت سكوت اختيار كرے وہ معفى عنہ ہے، اس ليے اسے ان بالوں كے ساتھ ملحق نہيں كيا جائيگا جنہيں زائل اور صاف كرنے كا حكم ديا گيا ہے، نہ يہ وجوب ميں اور نہ مستحب ميں ہے، اور يہ اس كے مقابلہ ميں ان بالوں ميں بھى شامل نہيں ہوتے جنہيں باقى ركھنے كا حكم ديا گيا ہے، مثلا عورت كے سر كے بال، اور ابرو كے بال.
اور اس ليے كہ شارع نے اس كے حكم سے سكوت اختيار كيا ہے لہذا علماء كرام اس ميں اختلاف كرتے ہيں:
بعض علماء كا كہنا ہے:
انہيں صاف كرنا اور اتارنا جائز نہيں؛ كيونكہ انہيں اتارنا اور زائل كرنا اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى يعنى تغير خلق اللہ ميں داخل ہوتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے شيطان كا قول نقل كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور ميں ضرور انہيں كہونگا كہ وہ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كريں النساء ( 119).
اور دوسرے علماء كا كہنا ہے:
انہيں باقى ركھنا بھى جائز ہے، اور انہيں زائل اور صاف كرنا بھى جائز ہے، كيونكہ شريعت مطہرہ اس سے خاموش ہے اور اس كا حكم اباحت ہے؛ كيونكہ كتاب و سنت ميں جس سے سكوت اختيار كيا گيا ہو وہ درج ذيل حديث كى بنا پر معفى عنہ ہے:
” حلال وہ ہے جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں حلال كيا ہے اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں حرام كيا ہے، اور جس سے سكوت اختيار كيا ہے وہ اس ميں شامل ہے جس سے اللہ نے معاف كيا ہے ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1726 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام نے بھى يہى جواز والا قول اختيار كيا ہے، اور اسى طرح شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 3 / 879 ) اور مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 64 ).
دوم:
خاوند اور بيوى دونوں كا ايك دوسرے كے ليے بناؤ سنگھار اور زينت اختيار كرنا مستحب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم ان كے ساتھ اچھے اور بہترانداز ميں بود باش اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں، اچھائى كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).
اور اچھائى ميں يہ بھى شامل ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں ايك دوسرے كے ليے زينت اور بناؤ سنگھار اختيار كريں، اس ليے اگر خاوند بيوى كو زينت اور بناؤ سنگھار كرنے كا حكم دے تو بيوى كے ليے ايسا كرنا واجب ہے، كيونكہ يہ خاوند كا حق ہے، اور پھر بيوى پر اچھائى ميں خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے ”
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ مادۃ تزين ( 11 / 271 ).
اس بنا پر اگر خاوند اپنى بيوى كو ہاتھوں اور ٹانگوں كے بال صاف كرنے كا كہے، اور ايسا كرنے ميں بيوى كے ليے كوئى ضرر اور نقصان كا باعث نہ ہو، يا بيوى اس كى حرمت كا اعتقاد ركھتى ہو تو اس پر واجب ہے، اور خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنے اس مطالبہ كو ختم كر دے، ليكن اگر وہ بيوى خاوند كو يہ باور كرانے ميں كامياب ہو جائے كہ ايسا كرنا اس كے ليے تكليف اور ضرر كا باعث ہے، يا وہ ايسا نہيں كرنا چاہتى تو پھر خاوند كو اپنا حق ساكت كر دينا چاہيے.
سوم:
اس غرض كے ليے باربر شاپ جانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كى كچھ شرائط ہيں:
ا ـ يہ كام صرف عورت ہى سرانجام دے، اور وہاں كوئى بھى مرد نہ ہو، اور اس كے ساتھ يہ بھى ملحق كيا جائيگا كہ وہ جگہ قابل اعتماد ہو خاص كر اس جديد دور ميں جبكہ تصوير اور فوٹو اور كيمرہ وغيرہ كى بہت ترقى ہو چكى ہے، اور بہت سارے نفس خراب ہو چكے ہيں.
ب ـ عورتيں اس كے ستر كو نہ ديكھ پائيں، مثلا رانيں، صرف ہاتھ اور پاؤں تك ہى محدود ہو، جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا قول ہے.
ديكھيں: اللقاء الشہرى سوال نمبر ( 278 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عورتوں كے ليے حمام ( باربر شاپس ) قطعى طور پر حرام ہيں، ابو مليح رحمہ اللہ كہتے ہيں:
شام كى كچھ عورتيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آئيں تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے دريافت كيا: تم كہاں سے ہو ؟
انہوں نے جواب ديا: ہمارا تعلق اہل شام سے ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا فرمانے لگيں:
شائد تمہارا اس علاقے سے تعلق ہے جہاں كى عورتيں حماموں ميں جاتى ہيں ؟
انہوں نے جواب ديا جى ہاں.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:
ليكن ميں نے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمايا:
” جو عورت بھى اپنے گھر كے علاوہ كہيں اور كپڑے اتارتى ہے اس نے اپنے اور اللہ كے درميان ( پردہ ) پھاڑ ديا ”
اسے اصحاب سنن اربعہ نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند صحيح اور شيخين كى شرط پر ہے.
ديكھيں: تمام المنۃ ( 130 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب