ميرا خاوند روزے سے تھا گھر ميں داخل ہوا تو وہ بہت غصہ ميں تھا اس نے اپنى طلاق شدہ پہلى بيوى سے بيٹى كے بارہ ميں دريافت كيا تو ميں كہا مجھے نہيں معلوم كہاں ہے، خاوند نے سمجھا كہ ميں نے اسے گھر سے نكال ديا ہے، اس نے قسم اٹھاتے ہوئے كہا:
اگر تم ميرى اولاد كو نہيں چاہتى تو تمہيں طلاق، يا پھر يہ كہا: ميں تمہيں طلاق دے دونگا، اس كے بعد ايك ماہ تك گھر چھوڑ ديا اور اپنى اولاد كے ساتھ واپس آيا تو ايك اور مشكل پيش آ گئى اس كا بيٹا گھر سے بھاگ گيا اور آٹھ ماہ تك نہ آيا، اس كے بعد اس نے اسے گھر لانا چاہا تو ميں نے انكار كر ديا كہ وہ اس گھر ميں نہ آئے.
يہ علم ميں رہے كہ وہ لڑكا نشہ آور اشياء استعمال كرتا تھا اور اسى طرح نئے نئے كام اور مشكلات پيدا كرتا، ميرے انكار كے بعد خاوند نے اب تك ايك ماہ ہوگيا ہے گھر چھوڑ ديا ہے سوال يہ ہے كہ: كيا اس كى پہلى كلام كے مطابق اس كے بيٹے كو اپنے ساتھ ركھنے سے انكار كرنے پر طلاق واقع ہو گئى ہے يا نہيں ؟
خاوند كا بيوى كو كہنا: اگر تم ميرى اولاد كو نہيں چاہتى تو تمہيں طلاق ديتا ہوں
سوال: 143810
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
خاوند كا يہ كہنا: اگر تم ميرى اولاد كو نہيں چاہتى تو تمہيں طلاق ”
اس كلام كا حكم مختلف ہوگا اور خاوند كا يہ كہنا كہ: اگر تم ميرى اولاد كو نہيں چاہتى تو ميں تمہيں طلاق دے دونگا ” اس كا حكم اور ہوگا.
پہلى كلام ميں طلاق معلق ہے، اور اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے وہ يہ كہ:
اگر خاوند كا ارادہ طلاق ہو تو آپ اس كى اولاد كو ركھنے سے انكار كرنے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے اس كلام سے صرف آپ كو دھمكانا اور آپ كو انہيں ركھنے پر آمادہ كرنا مراد ليا تو آپ كا اس كى اولاد ركھنے سے انكار كرنے كى صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا لازم آئيگا.
اور دوسرى كلام ميں كہ وہ آپ كو طلاق دے ديگا ميں وعيد اور دھمكى ہے اس سے اس وقت تك طلاق واقع نہيں ہو گى جب تك وہ آپ كو الفاظ كے ساتھ طلاق نہيں ديتا.
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ شرعى عدالت يا پھر كسى ثقہ اہل علم سے رجوع كرے تا كہ وہ اس شخص كے الفاظ كى مراد كے بارہ ميں معلومات حاصل كر كے حكم لگائے.
دوم:
بيوى كے ليے خاوند كے اس بيٹے كے ساتھ گھر ميں رہنا ضرورى اور لازم نہيں جس كو اپنے ساتھ گھر ميں ركھنے سے بيوى كو يا پھر اس كى اولاد كو ضرر اور نقصان ہو.
الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:
” رہا مسئلہ بيوى اور خاوند كى دوسرى بيوى كے بيٹے كو ايك ہى گھر ميں اكٹھے ركھنے كا تو فقھاء كا اتفاق ہے كہ اگر دوسرى بيوى كے بيٹے كو جو عمر ميں اتنا بڑا ہو اور وہ جماع كو سمجھتا ہو تود وسرى بيوى كے ساتھ ايك ہى گھر ميں ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ بيوى كو اس كے ساتھ ركھنے ميں بيوى كو ضرر اور نقصان ہے، يہ بيوى كا حق ہے جو وہ اپنى رضامندى سے ساقط كر سكتى ہے ” انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 25 / 110 ).
اور اگر خاوند كا بيٹا نشہ آور اشياء استعمال كرتا ہے تو بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے اور اپنى اولاد كو ضرر اور نقصان سے بچانے كے ليے اسے اپنے پاس نہ ركھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب