ہمارے ہاں مصر میں گھروں کی تعمیر کیلئے تعاونی تنظیمیں ہیں، ہم نے ان سے قسطوں پر مکان خریدا، پھر ہم نے سوچا کہ ایک اسلامی بینک سے مکان کیلئے رقم لیتے ہیں، بینک مذکورہ تنظیم سے مکان خرید ے گا، اور باقی جتنی بھی رقم رہ گئی ہے سب بینک ادا کریگا، اور پھر میرے اور بینک کے درمیان نیا معاہد ہ ہوگا جو مجھے معین مقدار میں نفع رکھ کر مکان فروخت کردیگا۔
تو کیا یہ طریقہ کار سودی تو نہیں ہے؟
ایک رہائشی سوسائٹی کے مکان کی کچھ اقساط باقی ہیں، تو کیا ان اقساط کو بینک کے ذریعے ادا کرنا درست ہے؟
سوال: 144379
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصول کے اعتبار سے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ بینک تعاونی تنظیم سے اپنے لئے مکان خریدے اور پھر قسطوں پر کسٹمر کو فروخت کرے، اسی کو تجارتی اصطلاح میں “خریداری کا حکم کرنے والے کیساتھ بیع مرابحہ” کہا جاتا ہے، اسکے لئے مزید تفصیل (110006) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
لیکن یہ صورت آپکے سوال میں پائی ہی نہیں جاتی، کیونکہ مکان اس وقت آپکی ملکیت میں ہے، تو بینک آپکو دوبارہ فروخت کرنے کیلئے کس طرح تعاونی تنظیم سے خرید سکتا ہے؟!
چنانچہ بینک آپکی باقیماندہ اقساط ادا کرنے کیلئے درمیان میں آئے گا تو صرف قرض دینے آئے گا، اس طرح سے بینک ادا شدہ اقساط سودی نفع کیساتھ آپ سے واپس لے گا، چنانچہ آپکا معاملہ مرابحہ والا ہے ہی نہیں، کیونکہ بینک تعاونی تنظیم سے مکان خرید ہی نہیں سکتا،اس لئے کہ مکان آپکی ملکیت میں ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات