سوال: کیا کوئی آدمی اپنی رضاعی بیٹی کو غریب ہونے کی وجہ سے زکاۃ دے سکتا ہے؟
رضاعی بیٹی کو زکاۃ دینے کا حکم
سوال: 144816
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انسان کی اپنی اولاد غریب ہو تو انہیں زکاۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ ان کے اخراجات پورے کرنا اس شخص کی شرعی ذمہ داری ہے ، تاکہ ان کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہ پڑیں، تاہم اس بارے میں کچھ استثنائی صورتیں ہیں جس کیلئے آپ سوال نمبر: (105789) اور (130207) کا مطالعہ کریں۔
یہ بات واضح رہے کہ یہ حکم حقیقی اولاد اور پوتے پوتیوں کے بارے میں ہے، جبکہ رضاعی اولاد کو زکاۃ دینا جائز ہے، کیونکہ رضاعی اولاد کے اخراجات رضاعی باپ کے ذمہ نہیں ہوتے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تمام علمائے کرام کا رضاعت کے ذریعے حرمت ثابت ہونے پر اجماع ہے۔۔۔ تاہم نسب سے تعلق رکھنے والے بقیہ احکامات مثلاً: نفقہ، غلامی سے آزادی، گواہی قبول نہ ہونا وغیرہ کا تعلق رضاعت کیساتھ نہیں ہے؛ کیونکہ حقیقی نسب نامہ رضاعت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس لئے رضاعت کی وجہ سے نسب کے احکامات منتقل نہیں ہونگے، صرف وہی احکامات لاگو ہونگے جن کے بارے میں نص آچکی ہے” انتہی
“المغنی”
اسی طرح انہوں نے “المغنی ” (8/169) میں کہا ہے کہ:
“ہمارے علم کے مطابق تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ انسان پر ایسی اولاد کا خرچہ لازمی ہے جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور خرچہ واجب ہونے کیلئے تین شرطیں لگائی جاتی ہیں: ان میں سے تیسری یہ ہے کہ: خرچہ کرنے والا اس کا وارث بنتا ہو” انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:”کیا رضاعی ماں اور بہن کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“رضاعی ماں اور بہن کو زکاۃ کا مستحق ہونے کی صورت میں زکاۃ دی جا سکتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کا نفقہ رضاعی بیٹے اور بھائی کے ذمہ نہیں ہوتا، چنانچہ انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ زکاۃ کی مستحق ہوں” انتہی
“مجموع الفتاوى” (18/417)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات