0 / 0

عید کے دن اچھا لباس زیب تن کرنا سنت ہے، یہ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے۔

سوال: 144885

سوال: کیا یہ سنت ہے کہ یا ایسے کہیں کہ کیا عید کیلیے نئے کپڑے خریدنا جائز ہے؟ یا عید کیلیے نئے کپڑوں کی خریداری کفار کی مشابہت ہے؟ کیونکہ کفار بھی اپنے تہواروں کیلیے نئے کپڑے خریدتے ہیں؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مسلمانوں کو عید کے موقع پر اچھے سے اچھا لباس زیب تن کرنا چاہیے، اپنے دوست احباب سے ملے، رشتہ داروں سے ملتے ہوئے بن سنور کر جائے خوشبو استعمال کرے، یہ بات فطرتی طور پر سے سب لوگ جانتے ہیں ، لوگوں کے ہاں یہ عرف عام میں شامل ہے، بلکہ اچھا لباس زیب تن کرنا  اظہار خوشی اور عید کا دن منانے میں شامل ہوتا ہے۔

احادیث میں اس کے متعلق دلائل موجو دہیں:

چنانچہ صحیح بخاری: (948) اور مسلم: (2068) میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں سے ایک ریشمی جبہ فروخت کیلیے دیکھا تو اسے لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے اور کہا: "یا رسول اللہ! آپ یہ خرید لیں، اسے آپ عید اور وفود سے ملاقات کے وقت پہن لیا کریں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (یہ بد اخلاق لوگوں کا لباس ہے )
تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  عید کے دن بننے سنورنے پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ یہ بتلایا کہ یہ جبہ ریشم سے بنا ہوا ہے اس لیے اسے زیب تن کرنا حرام ہے۔

سنن نسائی پر سندھی رحمہ اللہ  کے حاشیہ: (3/181) میں ہے کہ:
"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن زیب و زینت اختیار کرنا صحابہ کرام کے ہاں معروف اور مسلمہ طریقہ کار تھا، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قدغن نہیں فرمائی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن بننا اور سنورنا اس وقت بھی عرف عام تھا" انتہی

شیخ ابن جبرین رحمہ ا للہ کہتے ہیں :
"عید کی نماز کیلیے بہت سی سنتیں اور مستحبات ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ: عید کے دن تیاری کر کے اچھے سے اچھا لباس زیب تن کیا جائے، کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد پارچہ فروش  کا جبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا کہ  عید اور وفود سے ملاقات کے وقت اسے زیب تن فرمایا کریں، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ریشم کا ہونے کی وجہ سے نہیں لیا، لیکن آپ عید اور جمعہ کے دن اچھا لباس اور جبہ اہتمام کے ساتھ زیب تن فرماتے تھے" انتہی
"فتاوى شیخ ابن جبرین" (59/44)

حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن ابی دنیا اور بیہقی نے ابن عمر تک صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ وہ عیدین کے موقع پر اپنا سب سے اچھا لباس زیب تن فرماتے تھے"انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مرد کیلیے عید کے دن بننا سنورنا اور بہترین لباس پہننا مسنون ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 / 2461)

اس لیے عید کے دن تیاری کیلیے نیا لباس خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اگرچہ غیر مسلم بھی اپنے تہواروں میں نیا لباس پہنتے ہیں لیکن پھر بھی یہ غیر مسلموں کی مشابہت  نہیں ہے؛ بلکہ کوئی بھی ایسا عمل جس کے کرنے سے متعلق شریعت میں حکم ہو یا اسے اچھا سمجھا گیا ہو تو اس میں  کفار سے مشابہت نہیں ہوتی۔

چنانچہ بلند اخلاقی اقدار ، مثال کے طور پر لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ، ملتے ہوئے خندہ پیشانی سے ملنا، صفائی ستھرائی کا خیال کرنا، خوشبو لگانا وغیرہ یہ سب شرعی امور ہیں ، ان کے بارے میں ڈھیروں شرعی دلائل ہیں جو ان کے مستحب یا جواز کی دلیل ہیں، چنانچہ اگر یہی کام غیر مسلم بھی شروع کر دیں اس میں غیر مسلموں کی مشابہت نہیں ہو گی۔

کفار سے مشابہت کی ممانعت ایسے امور میں ہے جو کفار کی علامت سمجھے جاتے ہیں، لیکن ایسے امور جو کافر و مسلم سب معاشروں میں یکساں رائج ہیں  ان کے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے کفار کی مشابہت کے بارے میں اصول دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"کفار کی مشابہت کے بارے میں اصول یہ ہے کہ آپ ایسا کوئی عمل کریں جو کفار کی علامت سمجھا جاتا ہو، اس لیے اگر کوئی مسلمان ایسا کام کرتا ہے جو صرف کفار ہی کرتے ہیں تو یہ کفار کی مشابہت ہے، لیکن اگر کوئی کام مسلمانوں میں اتنا عام اور رائج ہو جائے کہ کفار کی علامت نہ رہے تو اسے مشابہت نہیں کہتے، لہذا اس کام کو اس وجہ سے حرام نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کفار کی مشابہت ہے، البتہ اگر کسی اور وجہ سے حرمت کا پہلو نکلتا ہو تو  یہ الگ بات ہے۔

ہم نے جو ابھی اپنا موقف بیان کیا ہے حقیقت میں یہ لفظ "مشابہت " کا تقاضا ہے، یہی بات حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں بھی لکھی ہے، آپ لکھتے ہیں:
"کچھ سلف صالحین نے بُرنس [ٹوپی والا کوٹ] پہننے کو مکروہ سمجھا ہے؛ کیونکہ یہ راہبوں کا لباس ہوا کرتا  تھا، جبکہ امام مالک سے ٹوپی والے کوٹ  پہننے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: اسے زیب تن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ عیسائیوں کا لباس ہے، امام مالک کہتے ہیں : ٹوپی والا کوٹ یہاں پر پہنا جاتا ہے۔" انتہی
مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (3/47-48)

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (36442) اور (108996) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android