سوال: میرے نواسے کی شادی ہونے والی ہے، تو کیا میں شادی کیلئے اسے زکاۃ دے سکتا ہوں؟
نواسے کو شادی کیلئے زکاۃ دینے کا حکم
سوال: 145092
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر کوئی آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے اپنے غریب آبا و اجداد اور اپنی غریب نسل پر خرچ کرنا چاہیے ، اس بات کا تفصیلی بیان پہلے سوال نمبر: (130207) کے جواب میں گزر چکا ہے۔
آباؤ اجداد سے مراد : باپ، ماں، دادا، دادی ہیں۔
اور نسل سے مراد : بیٹے، بیٹیاں ،پوتے اور نواسےہیں۔
چنانچہ اس بنا پر مذکورہ لوگوں میں سے کسی کو زکاۃ نہیں دی جا سکتی، اس بارے میں اہل علم نے صراحت سے یہ موقف بیان کیا ہے۔
چنانچہ “تبيين الحقائق” (1/302) میں ہے کہ:
“اپنے آباؤ اجداد کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔۔۔ اور نہ ہی اپنی نسل کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، ان میں اولاد، پوتے پوتیاں نیچے تک شامل ہیں۔۔۔” انتہی
اسی طرح “الشرح الكبير” (9/285) میں امام احمد کا قول ہے کہ:
“اپنے نواسے اور نواسی کو زکاۃ نہ دے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (میرا یہ بیٹا سردار ہے) یعنی آپ نے اپنے نواسے کو بیٹا قرار دیا، چنانچہ جب ان پر قرابت کی وجہ سے زکاۃ منع ہو گئی تو ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے نانا پر نفقہ لازم ہوگا، یہی امام شافعی کا موقف ہے” انتہی
نواسے کو زکاۃ نہ دینے کا حکم اس صورت میں ہے جب نانا پر نفقہ لازم ہو، یعنی اگر نانا مالدار ہو اپنے نواسے کو زکاۃ کی بجائے عام مال دے۔
اسی طرح مرداوی رحمہ اللہ “الإنصاف” (3/254) میں کہتے ہیں:
“اگر آباؤ اجداد میں سے کسی پر اپنے نچلی سطح کے کسی نواسے یا پوتے پر خرچ کرنا فرض ہو تو اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، اس بات پر سب کا اجماع ہے” انتہی
اسی طرح “الموسوعة الفقهية” (8/127) میں ہے کہ:
“زکاۃ ادا کرنے والا شخص غریبوں اور مساکین کی مد میں کسی ایسے فرد کو زکاۃ نہیں دے سکتا جس کا خرچہ زوجیت کی وجہ سے یا اس کی نسل ہونے کی وجہ سے اس پر لازم ہو جیسے کہ بیٹے اور بیٹیاں ، اس بارے میں فقہائے کرام کا کوئی اختلاف نہیں ہے” انتہی
تاہم اگر زکاۃ ادا کرنے والے پر اپنے نواسے کا خرچہ واجب نہ ہوتا ہو کیونکہ اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں، تو ایسی صورت میں نواسے کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں زکاۃ ادا کر کے نان و نفقہ کی ذمہ داری ساقط نہیں کر رہا، بلکہ اس صورت میں اس پر نواسے کا نفقہ لازمی ہی نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ اپنے آباؤ اجداد اور اولاد کو اس وقت زکاۃ دینا جائز ہے جب زکاۃ کے ذریعے واجب خرچہ یعنی نفقہ ساقط کرنا مقصود نہ ہو، چنانچہ اگر نفقہ زکاۃ ادا کرنے والے پر واجب ہو تو انہیں زکاۃ ادا نہیں کی جاسکتی؛ کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے ذمہ نفقہ کو زکاۃ دے کر ساقط کر یگا۔
اس بنا پر اگر کسی شخص کا دادا یا باپ دونوں فقیر ہوں ، لیکن بیٹے کے پاس باپ پر خرچ کرنے کیلئے مال موجود ہو تو یہاں بیٹا باپ کو زکاۃ نہیں دے سکتا، لیکن اس کے پاس دادا کے لئے اتنے پیسہ نہیں ہیں کہ وہ دادا پر خرچ کر سکے تو یہاں پوتا دادے کو زکاۃ دے سکتا ہے۔
ایک اور مثال، ایک شخص کی ماں اور نانی ہے، یہ شخص اپنی ماں کی ضروریات پوری کرتا ہے، لیکن اس کے پاس نانی کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے، تو اسے زکاۃ کے پیسے دے سکتا ہے” انتہی
“الشرح الممتع” (6/92)
حاصل کلام یہ ہوا کہ :
اگر نانا اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ اپنے نواسے پر کچھ خرچ کر سکے تو اسے زکاۃ دے سکتا ہے، بلکہ اسے زکاۃ دینا دیگر لوگوں کو دینے سے بہتر ہوگا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات