سوال: کچھ غیر ملکی لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں غربت بہت ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی زکاۃ اپنے ملک میں ہی ارسال کرتے ہیں، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟
غیر ملک میں کام کرتا ہے اور اپنی زکاۃ اپنے ملک میں ارسال کرتا ہے
سوال: 145096
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصولی طور پر زکاۃ وہیں پر خرچ کی جائے گی جہاں پر زکاۃ کا موجب بننے والا مال موجود ہے، چنانچہ زکاۃ اسی صورت میں کہیں اور منتقل کی جائے گی جب کوئی ضرورت یا مصلحت اس بات کی متقاضی ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: (انہیں یہ بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان کے مال پر زکاۃ فرض کی ہے جو کہ مالداروں سے لیکر انہی کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی) بخاری: (1395)، و مسلم: (19)
تاہم اگر کسی ضرورت اور حاجت کے بغیر ہی زکاۃ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر بھی دی تو یہ غلط کام ہے، لیکن اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی، چنانچہ اسے دوبارہ زکاۃ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔
چنانچہ اس کے متعلق”كشاف القناع” (2/263) میں ہے کہ:
“زکاۃ کو اصلی جگہ سے اتنی دور نہیں لے جایا جا سکتا جہاں نماز قصر ادا کرنی پڑے، چاہے زکاۃ کی منتقلی رشتہ داروں کو دینے کیلئے ہو یا زکاۃ کے مکمل آٹھ مصارف میں زکاۃ تقسیم کرنے کیلئے منتقل کی جائے، نیز زکاۃ منتقل کرنے کی ممانعت میں زکاۃ جمع کرنے والا نمائندہ اور دیگر افراد سب برابر ہیں۔۔۔ تاہم اگر کوئی پھر بھی زکاۃ منتقل کر دے تو نصوص کے عموم کی وجہ سے اس کی زکاۃ ادا ہو جائے گی، کیونکہ اس نے مستحقین زکاۃ تک زکاۃ پہنچا دی ہے، اس لیے زکاۃ کی ادائیگی ہو جائے گی جیسے کہ اس طرح ادا کیے گئے قرض کی ادائیگی ہو جاتی ہے۔۔” انتہی
چنانچہ “الموسوعة الفقهية” : (23/332) میں ہے کہ:
“گزشتہ تفصیل کی روشنی میں اگر ایسی جگہ زکاۃ منتقل کر دی جائے جہاں زکاۃ منتقل نہیں کی جا سکتی، تو اس بارے میں حنفی، شافعی، اور ایک موقف کے مطابق حنبلی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ اس طرح زکاۃ ادا ہو جائے گی؛ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی زکاۃ کی مستحق آٹھ اقسام سے خارج نہیں ہوئی۔
جبکہ مالکی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: اگر زکاۃ دینے والے نے ایسے علاقہ غیر کے لوگوں میں زکاۃ تقسیم کی جو مالی طور پر اس کے اپنے علاقے کے غریبوں جیسے تھے تو اس کی زکاۃ کافی ہوگی، لیکن ایسا کرنا حرام ہے؛ اور اگر اس کے اپنے علاقے کے لوگ دوسروں سے زیادہ غریب ہوں تو پھر خلیل اور دردیر کے مطابق اس کی زکاۃ ادا نہیں ہوگی، تاہم دسوقی کا کہنا ہے کہ: مواق نے نقل کیا ہے کہ ہمارے مذہب کے مطابق ہر حالت میں زکاۃ ادا ہو جائے گی” انتہی
نوٹ:
اہل موسوعہ نے مذکورہ اقتباس میں شوافع سے یہ نقل کیا ہے کہ : اگر کوئی زکاۃ کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل کرے تو یہ اس کیلئے کافی ہوگی، لیکن اس مسئلے کے بارے میں شافعی رحمہ اللہ سے دو اقوال ہیں، تاہم اما م شافعی کے شاگردوں کے ہاں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ: امام شافعی کے نزدیک زکاۃ کافی نہیں ہوگی”
دیکھیں:”المجموع” (6/212) ، “أسنى المطالب” (1/403) “فتوحات الوهاب” (4/109)
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سے زکاۃ کو مسافت قصر یا اس سے بھی دور منتقل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
“اس مسئلے کے بارے میں علمائے کرام کے دو مشہور اقوال ہیں، چنانچہ متاخرین ہم مذہب فقہائے کرام کے ہاں جائز نہیں ہے، تاہم اگر اس کے اپنے علاقے میں فقراء نہیں ہیں تو پھر جائز ہے، دوسرا موقف یہ ہے کہ: اگر زکاۃ منتقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو تو جائز ہے، اسی موقف کو شیخ تقی الدین نے اختیار کیا ہے، اور شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب کہتے ہیں کہ اسی پر عمل ہے، اور دونوں اقوال کی صورت میں زکاۃ ادا ہو جائے گی” انتہی
ماخوذ از: “فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم” (4/98)
نیز انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
“پہلے گزرے ہوئے موقف کے قائلین کا اختلاف ہے کہ کیا اس حالت میں زکاۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں؟ تو مشہور یہی ہے کہ زکاۃ ادا ہو جائے گی البتہ زکاۃ منتقل کرنا حرام یا مکروہ ہے” انتہی
ماخوذ از: “فتاوى شیخ محمد بن ابراہیم” (4/99)
خلاصہ :
یہ ہے کہ زکاۃ وہیں پر تقسیم کی جائے گی جہاں زکاۃ کا سبب بننے والا مال موجود ہے، تاہم اگر کوئی شرعی مصلحت ہو تو زکاۃ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شرعی مصلحتوں میں درج ذیل امور شامل ہیں : انسان اپنے رشتہ داروں کو یہ زکاۃ دے، کیونکہ اس طرح اسے زیادہ ثواب ملے گا، یا پھر جن کی طرف زکاۃ منتقل کی جا رہی ہے وہ شدید ضرورت مند ہیں یہ بھی شرعی مصلحت میں شامل ہے۔
اس بارے میں مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (43146) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات