0 / 0
3,91312/03/2011

رہائش پرمٹ حاصل كرنے كے ليے شادى كرنے والے شخص سے طلاق كرنا

سوال: 145142

ايك مسلمان بہن كہتى ہے: ميں نے تقريبا ايك برس قبل شادى كى ليكن ميرا خاوند ميے ساتھ اچھا سلوك نہيں كرتا مجھے علم ہے كہ اس نے ميرے ساتھ شادى صرف اس ليے كى تا كہ اسے رہائش پرمٹ مل جائے، مشكل يہ ہے كہ ميں اب حاملہ بھى ہوں، اور بڑى مصيبت سے دوچار ہوں.

ميرا خاوند ميرے وجود كا اعتبار ہى نہيں كرتا كہ ميں بھى موجود ہوں، وہ مجھے قبيح شمار كرتا ہے، ميرے خيال ميں وہ اس طرح گھر اور خاندان نہيں بنانا چاہتا جس طرح اللہ كا حكم ہے جب بھى اپنے ملك جاتا ہے مجھے ساتھ نہيں لے كر جاتا ميں نے اس سے اس سلسلہ ميں بات كى ليكن وہ اس كى طرف دھيان ہى نہيں ديتا، كيا ميرے ليے طلاق طلب كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اس خاوند اور بيوى كے مابين اصلاح كى كوشش كرنى چاہيے، اور انہيں ايك دوسرے حقوق كى ادائيگى كى ياد دہانى كرائى جائے كہ ان دونوں پر ايك دوسرے كے متعلق كيا واجب ہوتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اكثر خفيہ مشروں ميں كوئى خير نہيں، ہاں بھلائى اس مشورہ ميں ہے جو خيرات كا يا نيك بات كا يا لوگوں ميں صلح كروانے كا حكم دے، اور جو شخص صرف اللہ تعالى كى رضامندى حاصل كرنے كے ارادے سے يہ كام كرے اسے ہم يقينا بہت بڑا ثواب ديں گے النساء ( 114 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور اگر تمہيں خاوند اور بيوى كے درميان آپس كى ان بن كا خدشہ ہو تو ايك منصف مر والوں ميں سے اور ايك منصف عورت كے گھر والوں ميں سے مقرر كرو، اگر يہ دونوں صلح كرانا چاہيں گے تو اللہ تعالى دونوں ميں ملاپ كرا دےگا، يقينا اللہ تعالى پورے علم والا پورى خبر ركھنے والا ہے النساء ( 35 ).

تو يہ طلاق كى سوچ اور طلاق لينے ميں غور و فكر پر مقدم ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اختلافات كے سبب بالكل واہى قسم كے ہوں، يا ان اسباب كا علاج ممكن ہو، اور آدمى كو صحيح راہنمائى مل جائے، اور وہ اپنى بيوى كى قدر جان جائے، اور اپنے خاندان اور گھر كى حرص ركھے.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بيوى اپنے تصور ميں مبالغہ كر رہى ہو اور اپنے ساتھ خاوند كے حال كے بارہ ميں تصور ميں بھى مبالغہ سے كام لے رہى ہو.

اور خاوند نے رہائش پرمٹ حاصل كرنے كے ليے شادى كى ہے اس كا يہ معنى نہيں كہ وہ بيوى سے محبت نہيں كرتا، يا وہ بيوى ميں رغبت نہيں ركھتا، يا وہ اس كى حرص نہيں ركھتا ہے اور اسى طرح بيوى كو اپنے خاندان ميں نہ لے جانے كے بھى كئى ايك اسباب ہو سكتے ہيں.

اس ليے خاوند اور بيوى دونوں كو چاہيے كہ وہ اختلاف كے اسباب اور نفرت كے اسباب تلاش كريں اور ان كے علاج كى كوشش كريں.

اور اگر مذكورہ وسائل فائدہ نہ ديں، اور بيوى اپنے خاوند كے ساتھ رہنے ميں ضرر محسوس كرے، تو بيوى كے ليے طلاق طلب كرنا جائز ہے.

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى تنگى كے طلاق كا مطالبہ كيا تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے ”

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 )، علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ بغير كسى تنگى اور سبب اور مشقت و ضرر مثلا خاوند كا بيوى كو چھوڑ دينا اور اس كے حقوق ادا نہ كرنا، يا پھر بيوى كو زدكوب كرنے اور سب و شتم كرنے كى زيادتى كرنا، يا نفقہ و اخراجات نہ دينا، ان اسباب كے علاوہ طلاق طلب كرنا حرام ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android