0 / 0

خاوند اپنے گھر والوں پر خرچ كرتا اور بيوى كے ليے مال جمع نہيں كرتا

سوال: 145724

ميں شادى شدہ ہوں شادى كے وقت ميں رہائش اور گھريلو ساز و سامان اور دلہن كو ديا جانے والے سونے سے دستبردار ہو گئى تھى كيونكہ ميرا خاوند باہر كے ملك ميں ملازمت كرتا تھا، چنانچہ عفت اختيار كرتے ہوئے شادى كى موافقت كر لى كہ ميں خاوند كے ساتھ باہر كے ملك جانے كے معاملات حل ہونے تك سسرال والوں كے ساتھ رہونگى.

ليكن كچھ ہى عرصہ قبل جب ميں نے خاوند سے تنخواہ كے بارہ ميں دريافت كيا تو حيران رہ گئى كہ وہ تو اپنے امير ترين شادى شدہ بھائى كا تعاون كرتا ہے، اور اسى طرح وہ اپنے سارے خاندان كى معاونت كرتا ہے، حالانكہ ہميں اپنا مكان بنانے كے ليے مال كى زيادہ ضرورت ہے.

جب ميں نے ايسا كرنے كى مخالفت كى تو خاوند نے ايسے معاملہ ميں دخل دينے كا الزام لگايا جو ميرے ساتھ خاص نہيں، اور كہنے لگا كہ اسے اپنے گھر والوں كے ليے خير و بھلائى كرنى چاہيے، اس كے ليے رہائش اور سونا مہيا كرنا لازم ہے، اس كے بعد مجھے خاوند كے مخصوص معاملات ميں دخل دينے كا كوئى حق نہيں.

ميرا سوال يہ ہے كہ اس مسئلہ ميں ميرا خاوند كى مخالفت كرنا غلطى تو نہيں، كيا اس سے اللہ تعالى ناراض تو نہيں ہوگا ؟

ميرا خاوند مجھ سے دور ہو اور ميں اس كى جدائى برداشت كرتى پھروں اور ميں اس كى ممد و معاون بنوں، اور اپنے ميكے سے دور رہوں، ليكن اس عرصہ ميں اس كا بھائى ميرے خاوند كے مال سے فائدہ حاصل كرتا پھرے، حالانكہ خاوند كا بھائى اچھا خاصہ امير اور دولتمند بھى ہے، كيا ميرا خاوند اس مال كا زيادہ حقدار نہيں ہے ؟

اور اگر خاوند كى ضروريات سے مال زيادہ ہے تو اسے اپنے فائدہ كے ليے جمع كرنا چاہيے تھا تا كہ بعد ميں بوقت ضرورت استعمال كر سكے، يا پھر كسى مستحق اور فقير شخص پر صدقہ كر دے، ميرا سوال يہ ہے كہ آيا ميرا خاوند صحيح كر رہا ہے يا نہيں ؟

خاوند اپنے خاندان والوں كى محبت كے ليے مال صرف كرتا ہے، ميرے خيال ميں خاوند مجھ پر ظلم كر رہا ہے، اگر ميرے خاوند كے پاس مال زيادہ ہے تو فقير شخص اس كا زيادہ محتاج ہے، يا پھر ميں، آپ ہم دونوں ميں سے كسے صحيح خيال كرتے ہيں، اور اگر ميرا خاوند صحيح ہے تو آپ مجھے كيا نصحيت كريں گے تا كہ ہم آپس ميں ايك دوسرے كو معاف و درگزر كر ديں، اور ميں بھى اس كے اجروثواب ميں شريك ہو سكوں، اور اگر ميں صحيح ہوں تو آپ كيا كہتے ہيں ؟

اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

آپ نے اپنے خاوند كى معاونت كر كے اور اس كى حالت پر راضى ہو كر اور اس كے قليل مال پر صبر كر كے بہت اچھا كام كيا اللہ تعالى آپ كو اس كا اجروثواب عطا فرمائے، اور آپ كى خوشى و سعادتمندى ميں اور اضافہ فرمائے.

دوم:

آپ كے خاوند كا اپنے گھر والوں اور اپنے بھائى كے ساتھ حسن سلوك كرنا اور ان كا اہتمام كرنا اور انہيں دينے كے ليے اپنى تنخواہ سے بچانا آپ كے خاوند كى نيكى و كرم اور حسن اخلاق كى دليل ہے، كيونكہ صلہ رحمى تاكيد اطاعت ميں شامل ہوتى ہے، اور پھر اقرباء و رشتہ داروں كے ساتھ نيكى و حسن سلوك كرنا تو صدقہ اور صلہ رحمى بھى ہے.

سلمان بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” مسكين پر صدقہ تو صرف صدقہ ہے، ليكن رشتہ دار پر صدقہ كرنا دو چيزيں ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمى ہے ”

سنن نسائى حديث نمبر ( 2582 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 658 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1844 ) علامہ البانى رحمہ الللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس ليے جب آپ كا خاوند آپ كے واجب نفقہ ميں كمى و كوتاہى كا مرتكب نہيں ہوتا تو آپ كے خاوند كو اپنے خاندان والوں كى معاونت اور عزت و اكرام اور ان كے ساتھ حسن سلوك كرنے پر ملامت نہيں كى جائيگى، اور يہ آپ كى ليے اور اس كا اپنے آپ پر ظلم شمار نہيں كيا جائيگا.

اور يہ كہ وہ اپنے مالدار بھائى كا تعاون كرتا ہے كوئى فقير نہيں، بلكہ بہت سارے فقراء تعاون كے زيادہ محتاج ہيں، اس كا يہ معنى نہيں كہ آپ كا خاوند غلط كر رہا ہے، كيونكہ صلہ رحمى اور رشتہ داروں كو مال دينے فقراء كے ساتھ مخصوص نہيں بلكہ غريب يا مالدار رشتہ دار كى مالى معاونت كرنے ميں بہت زيادہ اجروثواب يعنى صلہ رحمى كا ثواب ہے.

اس ليے آپ خاوند كے اس تصرف پر خاوند كى مخالفت مت كريں، بلكہ آپ كو نرمى اور حكمت كے ساتھ خاوند كى توجيہ كا حق حاصل ہے كہ آپ زمين يا رہائش كے محتاج ہيں وہ خريدى جائے، اور اقرباء كى معاونت بھى كرتے رہيں، ليكن آپ اس مسئلہ كو زيادہ مت ابھاريں، كيونكہ شيطان اسے آپ دونوں ميں اختلاف كا ذريعہ بنا كر آپ دونوں كے درميان مخالفت ڈال دےگا.

آپ كے يہى كافى ہے كہ آپ كا خاوند اپنا مال حلال ميں بلكہ ايك خير و بھلائى كے كام ميں خرچ كر ہا ہے اور ان شاء اللہ اسے اس كا اجروثواب بھى حاصل ہوگا.

آپ كا خاوند اپنے گھر والوں كى معاونت ميں جو رقم خرچ كر رہا ہے اس پر پريشان مت ہوں، بلكہ اس سلسلہ ميں اس كى معاونت كريں، اور اسے رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنے كى ترغيب دلائيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى ميں خرچ كرنے سے اللہ تعالى خرچ كرنے والے كو اس كا نعم البدل عطا كرتے ہوئے اس كى روزى ميں بركت ڈالتا ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان بھى ہے:

اور جو كچھ بھى تم ( اللہ كى راہ ميں ) خرچ كرتے ہو تو اللہ تعالى اس كا بدلہ ديتا ہے، اور وہ بہتر روزى دينے والا ہے سبا ( 39 ).

اور ہو سكتا ہے اگر آپ كا خاوند اپنے گھر والوں والدين اور بہن بھائيوں پر تنگى كرے تو اللہ تعالى اس كى روزى ميں تنگى كر دے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے، اور آپ كى راہنمائى كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android