سوال: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور اس آدمی کے اُس سے بچے بھی ہیں جو اپنے باپ کے ساتھ ہی رہ رہے ہیں، جبکہ مطلقہ بیوی اپنی ماں کیساتھ رہتی ہے، تو کیا وہ اپنی مطلقہ بیوی کو زکاۃ دے سکتا ہے؟ یہ واضح رہے کہ اس خاتون کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
مطلقہ بیوی کو زکاۃ دینے کا حکم
سوال: 146241
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ فقیر اور مساکین کی مد میں انسان اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا، اس کی تفصیل سوال نمبر: (130171) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
تاہم اگر بیوی کو طلاق ہو گئی ہو تو دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگی:
1- طلاق رجعی ہو گی ۔
2- یا طلاق بائنہ ہو گی۔
یعنی : تین طلاق کے بعد عدت ختم ہو چکی ہو، یا عورت نے خلع لے لیا ہو۔
پہلی صورت میں اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ رجعی طلاق کی مدت میں بھی مطلقہ بیوی ہی رہتی ہے، اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو بیوی کے ہوتے ہیں، اور اس کے ذمہ بھی وہی حقوق ہوتے ہیں جو ایک بیوی پر لازم ہوتے ہیں، ماسوائے ان احکام کے جنہیں اہل علم نے مستثنی قرار دیا ہے جیسے کہ: خاوند کی طرف سے تقسیم کردہ ایام کی باری اور بیوی کے نافرمان ہونے کی صورت میں خرچہ بند کر دینا۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (112002) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور دوسری صورت میں چاہے تین طلاق کے بعد ابھی عدت میں ہی ہو تو وہ ایک اجنبی عورت ہے، تو ایسی صورت میں اگر وہ زکاۃ کی مستحق ہے تو اسے زکاۃ میں سے دینا جائز ہے؛ کیونکہ وہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ …)
ترجمہ: زکاۃ فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے۔۔۔۔ التوبہ:60]
نیز اب اس عورت کا خرچہ سابقہ خاوند پر لازمی نہیں ہے، اس لئے اسے زکاۃ دے سکتا ہے۔
تاہم اگر وہ عورت حاملہ ہو تو اس صورت میں سابقہ خاوند پر خرچہ لازمی ہے۔
لیکن یاد رہے، اگر یہ عورت زکاۃ کی مستحق نہیں ہے، مثلاً: اس عورت کا کوئی قریبی اس کے اخراجات برداشت کرتا ہو تو ایسی صورت میں اسے زکاۃ نہیں دی جا سکتی؛ کیونکہ اس صورت میں یہ خاتون آیت میں مذکور افراد میں شامل نہیں ہوگی، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (زکاۃ میں کسی مالدار یا کمانے کی طاقت رکھنے والے صحت مند کیلئے کوئی حصہ نہیں ہے) ابو داود: (1633)
اور “حاشیہ قليوبی و عمیرہ” (3/197) میں ہے کہ:
“جس کے اخراجات کسی رشتہ دار کی جانب سے یا اس کے خاوند کی طرف سے برداشت کیے جا رہے ہوں تو وہ صحیح موقف کے مطابق فقیر کے زمرے میں نہیں آتا؛ کیونکہ اس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں ؛ چنانچہ اس کا حکم ایسے شخص کی طرح ہی ہوگا جو یومیہ کمائی کر کے اپنا پیٹ پالتا ہے” انتہی
خلاصہ:
یہ ہے کہ اگر عورت عدت سے فارغ ہو جائے یا طلاق بائنہ ہو تو زکاۃ کی مستحق ہو نے کی صورت میں اسے سابقہ خاوند اپنی زکاۃ دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات