میں نے ایک شخص کو قرضہ دیا ہوا ہے تو کیا میں اس کی طرح کسی غریب آدمی کو اپنی رقم وصول کرنے کیلئے بھیجوں اور اسے زکاۃ میں شمار کر سکتا ہوں؟
کسی غریب کو اپنا قرضہ وصول کرنے کیلئے بھیجے اور اسے زکاۃ میں شمار کر لے؟
سوال: 146362
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قرضہ معاف کر کے اسے زکاۃ میں شمار کرنا صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے زکاۃ ادا ہوگی؛ کیونکہ ادا ہونے کیلئے شرط یہ ہے کہ فقیر اور غریب آدمی کے قبضے میں زکاۃ کا مال آئے، جبکہ قرضہ معاف کرنا مال کو غریب کے ہاتھ میں تھمانے کے مفہوم میں نہیں آتا ، فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ)
ترجمہ: اگر تم صدقات ظاہری طور پر دو تو یہ اچھا ہے، اور اگر تم اسے خفیہ تو پھر فقراء میں تقسیم کرو تو یہ تمہارے لیے بہت زیادہ بہتر ہے۔[البقرة:271]
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں:
“اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ : زکاۃ کی ادائیگی اس وقت تک معتبر نہیں ہو گی جب تک فقیر کے ہاتھ میں نہ چلی جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ” وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ “یعنی تم فقراء کو پہنچاؤ اور انہیں دو”
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (13901) اور (119113) کا مطالعہ کریں۔
لیکن جو صورت سوال میں مذکور ہے اس میں قرضہ معاف کرنے والی بات نہیں ہے، بلکہ ایک غریب شخص کو آپ اپنا نمائندہ بنا کر بھیج رہے ہیں کہ آپ میری رقم فلاں سے جا کر لے لو، چنانچہ اسے زکاۃ میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس طرح زکاۃ بھی اد ہو جائے گی۔
لیکن اگر اس غریب شخص کو آپ کے مقروض نے ٹال مٹول کرتے ہوئے ، یا تنگ دستی کی وجہ سے رقم نہ دی تو آپ کے ذمہ زکاۃ ادا کرنا باقی رہے گا، کیونکہ زکاۃ اسی وقت ادا ہوگی جب فقیر کے ہاتھ میں پہنچ جائے۔
چنانچہ سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر قرضہ کی رقم کسی فقیر پر صدقہ کرتے ہوئے اس فقیر کو کہا کہ : “تم فلاں سے رقم لے لو” اور نیت زکاۃ کی ادائیگی کی ہو تو اس سے زکاۃ ادا ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ فقیر آدمی قرضہ کی رقم وصول کرنے کیلئے قرض خواہ کا وکیل اور نمائندہ ہے، تو گویا کہ موکل نے خود رقم وصول کر کے اس پر صدقہ کیا ہے اور اسے زکاۃ میں شمار کر لیا۔۔۔” انتہی
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات