سوال: کچھ ایسے خاندان ہیں جن کی اولاد جوان ہے کما کر کھا پی سکتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ محنت اس لیے نہیں کرتے کہ یہ کام ہمارے شایان شان نہیں ہے، تو کیا انہیں زکاۃ دی جائے؟
کمانے کی استطاعت رکھنے والے فقیر کیلئے زکاۃ لینا درست نہیں ہے۔
سوال: 146363
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
کمانے کی صلاحیت رکھنے والے فقیر کو زکاۃ دینی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جب تک اس میں کمانے کی صلاحیت ہے اسے فقیر نہیں کہا جا سکتا۔
چنانچہ عبد اللہ بن عدی بن خیار سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی آپ کے پاس آئے اور زکاۃ کا سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نیچے سے اوپر تک غور سے دیکھا ، تو وہ کڑیل جوان تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم چاہو تو میں دے دیتا ہوں، لیکن اس زکاۃ میں کسی مالدار اور کمانے کی صلاحیت رکھنے والے کا کوئی حصہ نہیں ہے) ابو داود: (1633) اس کی سند کو نووی نے “شرح المهذب” (1/171) اور البانی نے صحیح ابو داود: (5/335) میں صحیح کہا ہے۔
اور “مالدار، غنی ” کی تعریف میں فقہ مالکی کی کتاب: “فقہ العبادات” (1/295) میں ہے کہ:
“مالدار، غنی اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس پورے ایک سال کا راشن ہو یا پورے سال کی ضروریات مکمل کرنے کیلئے تنخواہ یا کسی اور ذریعہ معاش کا حامل ہو۔۔۔” انتہی
اسی طرح “المنهاج مع مغنی المحتاج”(4/173) میں ہے کہ:
“فقیر ایسا شخص ہوتا ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ معاش ہو جس سے اس کی ضروریات پوری ہوں” انتہی
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس شخص کے پاس کوئی ایسا ذریعہ معاش ہو جس سے وہ اپنی اور اہل و عیال کی صورت میں ان کی ضروریات بھی پوری کرسکے، اور اس کی یومیہ کمائی روزانہ کیلئے کافی ہوتی ہو ، تو وہ غنی ہے، زکاۃ میں اس کیلئے کوئی گنجائش نہیں ، ابن عمر اور شافعی اسی کے قائل تھے۔۔۔” انتہی
“المغنی”(6/324)
لیکن محنت مزدوری کی نوعیت کیلئے یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ اس شخص کو زیب دیتی ہو، اگر محنت مزدوری کی نوعیت اسے زیب نہ دے مثلاً: وہ شخص پہلے با اثر شخصیات میں سے تھا لیکن کنگال ہو گیا تو اسے ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جو اس کی شایان شان نہ ہو، یعنی اسے کسی دکان وغیرہ پر مزدوری کیلئے مجبور نہیں کیا جائے گا، تو ایسی صورت میں انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“غزالی سے ایسے گھرانوں کے بارے میں پوچھا گیا جن کے ہاں ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے کا رواج نہیں ہے، تو کیا یہ فقراء اور مساکین کی مد میں زکاۃ وصول کر سکتے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: ہاں لے سکتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ فقراء کو ایسی محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا جو انہیں زیب بھی دیتی ہو” انتہی
“شرح المهذب” (6/175)
اور اسی طرح “المنهاج” میں ہے کہ:
“فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جو بالکل کنگال ہو یا اس کا ذریعہ معاش اس کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو، اگر کسی کو ذریعہ معاش ایسا دستیاب ہے جو کہ اسے زیب نہیں دیتا تب بھی وہ فقراء میں ہی شامل ہوگا” انتہی مختصراً
نیز “المنہاج” کے شارح امام شربینی نے “مغنی المحتاج” (4/174) میں کہا ہے کہ:
“یعنی: ایسا ذریعہ معاش جو مروّت کے منافی ہو تو وہ کالعدم ہی ہے، چنانچہ سابقہ حدیث میں محنت مزدوری سے مراد ایسی محنت مزدوری ہے جو حلال بھی ہو اور اسے زیب بھی دیتی ہو۔۔۔بلکہ غزالی رحمہ اللہ نے یہ فتوی بھی دیا ہے کہ ایسے گھرانے جن کے ہاں ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے کا رواج نہیں ہے ، وہ زکاۃ لے سکتے ہیں” انتہی
خلاصہ یہ ہوا کہ:
یہ لوگ جو اس وجہ سے محنت مزدوری نہیں کرتے کہ یہ کام ہماری شایانِ شان نہیں ہے، تو اگر واقعی کام اسی نوعیت کا ہو تو انہیں زکاۃ وصول کرنے کی اجازت ہے، لیکن اگر کام ان کیلئے مناسب ہے، اور اس طرح کا کام اُن کے ہم پلہ لوگ بلا جھجک کرتے بھی ہیں تو پھر انہیں زکاۃ نہیں دی جائے گی، بلکہ انہیں کما کر کھانے کی نصیحت کی جائے گی۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب