ميں نے ايك اسلامى ويب سائٹ پر لفظ ” اسرحى ” كے بارہ ميں پڑھا كہ اگر خاوند بيوى كو يہ لفظ بولے تو اسے طلاق ہو جائيگى، ميں نے چاہا كہ اپنے خاوند كو اس كے بارہ ميں بتا دوں تا كہ وہ اس ميں واقع نہ ہو جائے، خاص كر مصر ميں ہمارے ہاں يہ كلمہ رائج ہے مثلا اسرحى عشان انام ” جاؤ مجھے سونے دو.
چنانچہ ميں نے خاوند سے كہا كہ: سچى بات ہے كہ ميں نے پڑھا ہے كہ جب خاوند اپنى بيوى كو لفظ اسرحى كہے تو اسے طلاق ہو جاتى ہے.
ميں نے كہا: ميرى بات سنو اور تردد مت كرو، ليكن اس كى زبان سے لفظ نكل گيا اور وہ انكار كے لہجہ ميں كہنے لگا اسرحى جاؤ، اس نے قسم اٹھائى كہ لفظ كا مقصد نہ تھا بلكہ يہ تو بغير قصد كے نكلا ہے، كيا اس سے طلاق ہو گئى ہے ؟
بيوى كو \” اسرحى \” لفظ بولنے سے طلاق ہوگى يا نہيں
سوال: 146794
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
لفظ ” السراح ” جمہور فقھاء كے ہاں طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل نہيں ہوتا، اس ليے اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو اسرحى كے الفاظ بولے تو اس سے طلاق كى نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہوگى.
شافعيہ اور بعض حنابلہ كہتے ہيں كہ: يہ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اگر خاوند نے بيوى سے ” اسرحى ” كہا تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور خاوند كا قول نيت نہ كرنا قبول نہيں ہوگا، الا يہ كہ اگر اس پر كوئى قرينہ دلالت كرے كہ وہ اس سے طلاق مراد نہيں لے رہا تھا.
مثلا اگر وہ بيوى سے فصل والى جگہ ميں جلدى جانے كا كہنے كے بعد ” اسرحى ” كہے.
اور شافعى حضرات ميں سے ابن حجر مكى رحمہ اللہ كا فتوى ہے كہ:
” اسرحى ” كنايہ كے الفاظ ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ يہ سرح بغير شد كے ميں سے ہے، نہ كہ سرّح شد كے ساتھ.
اور الرملى نے نھايۃ المحتاج ميں ذكر كيا ہے كہ:
” جب خاوند طلاق كے صريح الفاظ بولے تو پھر خاوند كى يہ بات قبول نہيں كى جائيگى كہ اس نے طلاق كا ارادہ نہيں كيا تھا، ليكن يہ كہ اگر اس پر كوئى قرينہ دلالت كرتا ہو، اور اس ميں انہوں نے يہ ذكر كيا ہے كہ جب وہ بيوى كو كہے: كھيت جلد جانے كا حكم دينے كے بعد اسرحى كا لفظ بولے تو ظاہرا اس قبول كيا جائيگا “انتہى
ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 6 / 429 ).
اور مالكيہ يہ كہتے ہيں كہ: بغير نيت كے ہى لفظ سراح سے طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ ان كے ہاں بعض كے نزديك يہ لفظ صريح ميں شامل ہوتا ہے، يا پھر ظاہرى طور پر لكھے جو نيت كا محتاج نہ ہو.
راجح جمہور كا مسلك ہے، اس ليے السراح يا سرحتك يا اسرحى كے الفاظ سے طلاق اسى صورت ميں واقع ہوگى جب وہ طلاق كى نيت كريگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قال ( اور جب وہ كہے ميں نے تجھے طلاق دى، يا ميں نے تجھے عليحدہ كر ديا، يا ميں نے تجھے چھوڑ ديا تو اسے طلاق لازم ہو گى )
يہ اس كا تقاضہ كرتا ہے كہ صريح طلاق كے تين الفاظ ہيں الطلاق، الفراق، اور السراح اور ان سے بنائے جانے والے دوسرے صيغے.
امام شافعى كا مسلك يہى ہے، اور ابو عبد اللہ بن حامد كا كہنا ہے كہ: طلاق كا صريح لفظ صرف ايك ہى ہے اور وہ طلاق اور اس سے بنائے جانے والے صيغے اس كے علاوہ كوئى اور لفظ صريح نہيں، امام ابو حنيفہ اور امام مالك رحمہما اللہ كا مسلك يہى ہے.
ليكن امام مالك اس سے بغير نيت كے بھى طلاق واقع ہونے كے قائل ہيں؛ كيونكہ ظاہرى كنايات نيت كے محتاج نہيں ہوتے.
اس قول كى دليل يہ ہے كہ فراق اور السراح كے الفاظ طلاق كے علاوہ بھى بہت زيادہ استعمال ہوتے ہيں، اس ليے باقى كنايہ كے الفاظ كى طرح يہ بھى طلاق ميں صريح نہيں ہونگے.
پہلى وجہ يہ ہے كہ: كتاب اللہ ميں يہ الفاظ خاوند اور بيوى كے مابين علحيدگى اور جدائى كے معنى ميں وارد ہوئے ہيں، تو يہ اس ميں طلاق كے الفاظ كى طرح صريح ہوئے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اچھے طريقہ سے روك لو، يا پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دو .
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ دونوں عليحدہ ہو جائيں تو اللہ تعالى ہر ايك كو اپنى وسعت ميں سے غنى كر ديگا .
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو آئيں ميں تمہيں مال و متاع دے كر اچھے طريقہ سے چھوڑ ديتا ہوں .
ابن حامد كا قول زيادہ صحيح ہے؛ كيونكہ جس كے صريح ہونے ميں نص ہو وہ دوسرا احتمال نہيں ركھتا، ليكن وہ احتمال بعيد كا ہوگا.
اور الفراق اور السراح كے الفاظ قرآن مجيد ميں خاوند اور بيوى كے مابين عليحدگى اور تفريق كے معنى ميں استعمال ہوئے ہيں، اور اس كے علاوہ معنى ميں بھى وارد ہوئے ہيں اور عرف ميں يہ بہت زيادہ ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ كى رسى كو سب اكٹھے ہو كر مضبوطى سے تھام لو اور فرقہ ميں مت پڑو . انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 294 ).
اور اكثر لوگ اس لفظ كو طلاق كے معنى ميں استعمال نہيں كرتے، اس ليے ان كے ہاں يہ لفظ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل نہيں ہوگا.
حاصل يہ ہوا كہ: اس لفظ سے آپ كو طلاق واقع نہيں ہوئى جب تك كہ خاوند ان الفاظ سے طلاق كا ارادہ نہ ركھتا ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب