ميرى بہن كو ايك مشكل درپيش ہے كہ وہ بچپن سے ہى نيند كى حالت ميں پيشاب كر ديتى ہے، بہر حال ميرى بہن بڑى ہو گئى اور اب وہ بيس برس كى عمر كو پہنچ چكى ہے، ہم سب جانتے ہيں كہ اسے نيند ميں پيشاب كرنے كى بيمارى ہے.
اس ليے ہم كسى ليڈى ڈاكٹر يا ڈاكٹر كو تلاش كر رہے جو اس مشكل كو حل كرے، ايك دن ہمارے پڑوسى كے بيٹے نے مجھ بات كى كہ وہ ميرى بہن سے شادى كرنا چاہتا ہے، ميں اس وقت سے تنگى اور پريشانى كى حالت ميں ہوں ـ الحمد للہ على كل حال ـ ميں نے اس سے كچھ مہلت طلب كى.
ليكن ميں اپنى والدہ كو كيا كہوں جو كہ شوگر اور بلڈ پريشر كى مريضہ ہيں، اور والد بھى بوڑھے ہيں انہيں كيا كہوں حقيقت ميں ہميں كچھ اور بھى مشكلات كا سامنا ہے، ميرى نفسياتى حالت بھى پہلے سے برى ہو چكى ہے.
بہرحال ميں اپنے پڑوسى سے ملا ليكن مجھے كچھ سجھائى نہيں دے رہا كہ ميں اسے كيا جواب دوں، لہذا ميں نے اسے كہا كہ ان دنوں يہ موضوع پورا نہيں ہو سكتا، تو وہ كہنے لگا: اگر گھر والے نہيں مانے تو مجھے بتا دو، تو ميں نے اسے جواب ديا نہيں يہ بات نہيں، ليكن ہميں كچھ حالات درپيش ہيں.
پھر ميں نے اسے بتايا كہ ميرى بہن كو صحت كے متعلق ايك مشكل درپيش ہے، تو اس نے مجھے اس مشكل كى نوعيت كے متعلق پوچھا ليكن ميں اس كے سامنے اس معاملہ كى وضاحت نہ كر سكتا، اور اس دن سے آج تك ميں يہ كلمات كہنے پر نادم ہوں، اور اس كے باعث مجھے نيند بھى صحيح طور پر نہيں آتى.
اس كے بعد مجھے ايك ڈاكٹر كے متعلق علم ہوا جو ا سكا تجربہ ركھتا ہے، اور الحمد للہ ہم نے علاج شروع كرايا، اب كچھ بہترى ہے، وہ روزانہ نيند ميں پيشاب كرتى ہے، ليكن اب علاج معالجہ كے بعد كبھى كبھار ايسا ہوتا ہے، اور وہ بھى جب رات كو وہ جب كچھ پى كر سوئے تو ايسا ہوتا ہے.
اب جبكہ ہمارے پڑوسى كو يہ رشتہ طلب كيے ہوئے كچھ عرصہ ہوا ہے كيا ميں اس كے پاس جا كر اس معاملہ كى وضاحت كر دوں يا كہ اس سلسلہ ميں بات كرنى جائز نہيں، يہ علم ميں رہے كہ يہ نوجوان بااخلاق ہے، باقى معاملہ تو اللہ خوب جانتا ہے جناب مولانا صاحب اللہ آپ كو بركت سے نوازے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں ؟
لڑكى كے ليے آنے والے رشتہ كو نيند ميں پيشاب كرنے كے متعلق بتانا ضرورى ہے يا نہيں ؟
سوال: 146988
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہر وہ بيمارى يا وہ عيب جو ازدواجى زندگى پر اثرانداز ہو يا پھر خاوند اور بيوى ميں سے كسى ايك ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنتا ہو اس كا بيان كرنا ضرورى ہے، اور اسے چھپانا حرام ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور قياس يہ ہے كہ: ہر وہ عيب جو خاوند يا بيوى كو ايك دوسرے متنفر كرنے كا باعث ہو، اور اس سے نكاح كا مقصد محبت و پيار اور مودت حاصل نہ ہو تو اس سے اختيار واجب ہو جاتا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 166 ).
لہذا غير ارادى طور پر پيشاب كرنا ان عيوب ميں شامل ہوتا ہے اس ليے منگيتر كو اس عيب كے بارہ ميں بتانا ضرورى ہے ليكن اگر آپ كى بہن كو شفايابى حاصل ہوگئى ہے، يا پھر يہ بيمارى عنقريب زائل ہو جائيگى، تو پھر آپ كا اپنى بہن كے منگيتر كو اس كے بارہ ميں بتانا ضرورى نہيں.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے ايك عورت سے منگنى كى، اور اس عورت كے متعلق معروف ہے كہ اس ميں جسمانى عيب پايا جاتا ہے، ليكن يہ عيب واضح نہيں بلكہ مخفى ہے، اور پھر اس عيب سے شفايابى كى اميد ہے، مثلا برص وغيرہ كى بيمارى، تو كيا اس كے بارہ ميں منگيتر كو بتانا ضرورى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جب كوئى شخص كسى عورت سے منگنى كرتا ہے اور اس عورت ميں كوئى پوشيدہ عيب، جسے كچھ لوگ جانتے ہوں اگر تو منگنى كرنے والا شخص اس كے بارہ ميں دريافت كرے تو اس كا بيان كرنا واجب ہے، اور يہ واضح ہے.
ليكن اگر وہ دريافت نہيں كرتا تو پھر بھى اسے بتايا جائيگا كيونكہ يہ نصيحت كے باب ميں شامل ہوگا، اور خاص كر جب وہ عيب ختم نہ ہونے والا ہو، ليكن اگر وہ عيب زائل ہونے كى اميد ہو تو پھر يہ بہت ہى ہلكا اور آسان ہے.
ليكن كچھ اشياء ايسى ہوتى ہيں جو آہستہ آہستہ زائل ہوتى ہيں مثلا برص كى بيمارى ـ اگر اس كے بارہ يہ صحيح ہو كہ يہ زائل ہو جاتى ہے ـ ليكن مجھے تو ابھى تك يہ علم نہيں كہ برص كى بيمارى ختم اور زائل ہو جاتى ہے، اس ليے جو جلد زائل ہو جائے اس ميں اور جو دير سے زائل ہو اس ميں فرق كرنا چاہيے ” انتہى
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 5 ) سوال نمبر ( 22 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب