ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ آيا اگر كسى شخص كے ساتھ عورت ہو تو كيا اس كے ليے رمل كيے بغير طواف اور دوڑنے كے بغير سعى ہو جائيگى يا نہيں ؟
عورت ساتھ ہو تو طواف ميں رمل اور سعى ميں دوڑنا
سوال: 147282
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
طواف كے پہلے تين چكروں اور سعى ميں سبز نشان كےدرميان دوڑنا مسنون ہے، اور يہ مرد كے ليے سنت ہے عورت كے ليے نہيں.
اگر كسى شخص كے ساتھ عورت يا بوڑھا شخص ہو جن كے بارہ ميں خدشہ ہو كہ اگر وہ خود آگے بڑھ گيا تو عورت يا بوڑھا شخص گم جائيگا تو پھر وہ رمل اور دوڑنا چھوڑ كر ان كے ساتھ آرام سے چلے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كا طواف اور سعى ميں آرام كے ساتھ چلنا ہے "
ابن منذر رحمہ اللہ كا كہنا ہے كہ: اہل علم كا اجماع ہے كہ بيت اللہ كا طواف كرتے وقت عورتوں كے ليے رمل نہيں، اور نہ ہى صفا مروہ كى سعى كرتے ہوئے دوڑنا ہے، اور اضطباع بھى نہيں كريں گى.
كيونكہ ان سارے كاموں ميں اصلا طاقت و قوت كا اظہار ہے، اور يہ چيز عورتوں كےحق ميں مقصود نہيں، اور اس ليے بھى كہ عورتوں ميں مقصود تو ستر پردہ ہے، اور پھر رمل كرنے اور اضطباع ميں تو بےپردگى ہوگى " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 197 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے آپ نے طواف اور سعى ميں دوڑنے كا اشارہ كيا ہے ….
ميرا سوال يہ ہے كہ آيا يہ دوڑنا مردوں كے ليے خاص ہے يا كہ اس ميں عورتيں بھى شامل ہيں اور وہ بھى دوڑيں گى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
بعض اہل علم نے بيان كيا ہے كہ مسلمان علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ عورت طواف اور سعى ميں نہيں دوڑے گى، ابتدا ميں تو ميرا بھى يہى خيال تھا كہ عورت بھى سعى ميں دوڑے گى كيونكہ يہ سعى تو ہاجرہ رضى اللہ تعالى عنہا كى وجہ سے ہے اس ليے وہ بھى دوڑے گى.
ليكن جب ميں نے ديكھا كہ اہل علم نے اس پر اجماع نقل كيا ہے كہ عورت آرام سے چلےكى اور دوڑےگى نہيں، تو مجھے بھى يہى صحيح لگا كہ عورت چلےگى اور دوڑے گى نہيں.
باقى رہا وہ شخص جس كے ساتھ عورت ہو تو كيا وہ عورت كو چھوڑ كر خود دوڑے يا كہ اس كے ساتھ وہ بھى آہستہ چلے ؟
اس سلسلہ ميں ہم يہى كہيں گے كہ: اگر عورت تجربہ كار ہے اور اسے راستہ معلوم ہے اور گم ہونے كا خدشہ نہيں تو آدمى كے ليے پہلے تين چكروں ميں رمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں وہ عورت كو كہے كہ طواف كے آخر ميں ہم مقام ابراہيم يا كسى اور جگہ مليں گے.
ليكن اگر عورت كو معلوم ہى نہيں اور اس كے گم ہونے كا خدشہ ہو تو پھر اس عورت كے ساتھ چلنا رمل كرنے سے افضل ہوگا، اور سعى ميں دوڑنے سے عورت كے ساتھ چلنے سے افضل ہوگا " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 7 / 21 ) اور مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 22 / 430 ).
اور اسى طرح مريض اور بوڑھے شخص كے ليے بھى اگر دوڑنا اور رمل كرنا دشوار ہو تو وہ عام حالت ميں حسب استطاعت چلے، اور اگر اس كے چلنے ميں بھى دشوارى اور مشقت ہوتى ہو تو پھر سوار ہو كر طواف اور سعى كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب