میں اپنی پڑھائی کے سلسلے میں ایک نئے شہر میں منتقل ہو گیا ہو، میں مغرب کی نماز کے لیے مسجد گیا تو امام صاحب نے مغرب کے ساتھ عشا کی نماز بھی پڑھا دی، حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ نمازوں کو جمع کرنے کے اسباب کون کون سے ہیں ، لیکن چونکہ مجھے مکمل علم نہیں ہے کہ سارے کون کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں تو میں امام صاحب کے پاس گیا اور ان سے نمازیں جمع کرنے کی وجہ پوچھی ، تو انہوں نے کہا: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بارش کی حالت میں نمازیں جمع فرمائی ہیں۔ تو باہر چونکہ برف باری ہو رہی ہے اس لیے ہم نے نمازیں جمع کر لی ہیں۔ تو کیا برفباری کی صورت میں نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ وہ کون کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
وہ کون سے حالات ہیں جن میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟ نیز برفباری کی صورت میں نماز جمع کرنے کا حکم؟
سوال: 147381
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سنت مطہرہ میں مغرب اور عشا کی نماز بارش کی وجہ سے جمع کرنے کی دلیل موجود ہے، چنانچہ صحیح مسلم: (705) میں سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشا کی نماز مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع فرمائی۔" سعید کہتے ہیں: میں نے ابن عباس سے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عمل کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا: "تا کہ اپنی امت کو حرج میں نہ ڈالیں۔"
چنانچہ بارش پر قیاس کرتے ہوئے برفباری کی صورت میں بھی نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔
جیسے کہ "كشاف القناع" میں ہے کہ:
"ژالہ باری اور برف باری کی وجہ سے مغرب اور عشا کو جمع کرنا جائز ہے، ظہر اور عصر کو نہیں؛ کیونکہ ژالہ باری اور برف باری دونوں بارش کے حکم میں ہیں، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز پانی کی برف بننے کی صورت میں بھی جمع کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ پانی جم جانا شدید ترین سردی ہے۔"
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سرد موسم کی وجہ سے نمازیں جمع کرنے کے بارے میں کہتے ہیں:
"سرد موسم کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا جائز نہیں ہے، الا کہ لوگوں کے لیے تکلیف دہ شدید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو، یا برفباری ہو رہی ہو تو برفباری کا ہونا یقیناً لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں بھی نماز جمع کرنا جائز ہو گا۔" ختم شد
یہ بات واضح رہے کہ حنبلی فقہ نمازوں کو جمع کرنے کے حوالے سے تمام فقہی مکاتب سے زیادہ آسانی فراہم کرنے والا فقہی مذہب ہے، تو ذیل میں ہم آپ کو ایسے تمام عذر بتلاتے ہیں تا کہ آپ کو بھر پور فائدہ ہو۔
علامہ بہوتی رحمہ اللہ "كشاف القناع" (2/5) میں کہتے ہیں کہ:
"فصل :دو نمازوں کو جمع کرنے بارے میں ۔ ۔۔ ظہر اور عصر کی نماز کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے، تو یہ چاروں نمازیں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو ایک دوسرے کے وقت میں جمع کیا جا سکتا ہے، دوسری نماز کو پہلی کے ساتھ جمع کریں تو جمع تقدیم اور اگر پہلی نماز کو دوسری کے ساتھ جمع کریں تو جمع تاخیر کہلاتی ہے۔
نمازیں جمع کرنے کے آٹھ حالات ہیں:
اول: قصر کرنے والے مسافر کے لیے، یعنی مسافر کے لیے چار رکعتی نماز قصر کر کے ادا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ سفر مکروہ اور حرام کام کے لیے نہ ہو۔
دوم: ایسا مریض کہ جسے نمازیں جمع نہ کرنے کی صورت میں مشقت اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑے، کیونکہ مستحاضہ عورت کے لیے نمازیں جمع کر کے ادا کرنا ثابت شدہ ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ مرض میں نمازیں جمع کرنے کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : مرض ، سفر سے زیادہ مشقت کا باعث ہوتا ہے [اس لیے اگر سفر میں نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں تو مرض میں بالاولی جائز ہو گا۔ مترجم] امام احمد رحمہ اللہ نے سورج غروب ہونے کے بعد سنگی لگوائی اور پھر رات کا کھانا کھایا اور پھر مغرب اور عشا کی نماز جمع کر کے ادا کی۔
سوم: دودھ پلانے والی عورت کے لیے کہ اسے نجاست کا سامنا ہوتا ہے اور ہر نماز کے لیے پاک صاف رہنا مشقت کا باعث ہوتا ہے۔ ابو المعالی کہتے ہیں: ایسی عورت کا حکم مریض والا ہے۔
چہارم: ہر نماز کے لیے جو شخص وضو یا تیمم نہ کر سکتا ہو، وہ بھی نمازیں جمع کر سکتا ہے؛ کیونکہ مسافر اور مریض کے لیے نمازیں جمع کرنے کی سہولت مشقت کی وجہ سے ہے، لہذا ہر نماز کے لیے الگ سے وضو نہ کر سکنے والا شخص بھی انہی کے حکم میں ہو گا۔
پنجم: ایسا شخص جسے نمازوں کے اوقات کا علم نہ ہوتا ہو، مثلاً: نابینا شخص اور زیر زمین قید شخص ، اس کی طرف امام احمد نے اشارہ کیا ہے۔
ششم: مستحاضہ وغیرہ مثلاً: سلس البول ، مذی، دائمی نکسیر پھوٹنے کا عارضہ جسے لاحق ہو؛ کیونکہ سیدہ حمنہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے استحاضہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بارے میں فرمایا: (اگر تمہارے اندر طاقت ہو کہ ظہر کی نماز مؤخر کر سکو اور عصر کی نماز جلدی ادا کرو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کی نماز اکٹھے ادا کر لو، پھر اسی طرح مغرب کو مؤخر کر کے اور عشا کو جلدی ادا کرتے ہوئے غسل کر ے اور دونوں نمازوں کو جمع کر سکو ، تو تم ایسے ہی کرو) اس حدیث کو احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے، اور صحیح قرار دیا ہے، تو سلس البول والا شخص اور دیگر اسی جیسے بیمار لوگ بھی مستحاضہ کے حکم میں ہوں گے۔
ہفتم، ہشتم: کوئی بھی شخص جسے ایسی مصروفیت یا عذر لاحق ہو جس کی وجہ سے جمعہ اور با جماعت نماز ترک کرنے کی گنجائش ہو، مثلاً: کسی کو اپنی جان ، عزت اور مال کا خطرہ ہو، یا جمعہ ترک نہ کرے تو اسے سنگین معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، یا اسی طرح کا کوئی اور عذر ہو۔"
مذکورہ عذر کی بنا پر ظہر و عصر ، اسی طرح مغرب اور عشا کو جمع کیا جا سکتا ہے۔
کچھ عذر ایسے ہیں جن کی وجہ سے صرف مغرب اور عشا کی نماز جمع کی جا سکتی ہے، ان کی تعداد 6 ہے، جو کہ مصنف نے اس طرح بیان کیے ہیں:
"مغرب اور عشا کی نماز کو درج ذیل امور کی وجہ سے جمع کیا جا سکتا ہے : بارش اتنی ہو کہ کپڑے بھیگ جائیں، یا جوتے پانی میں ڈوب مائیں یا جسم گیلا ہو جائے اور مشقت کا باعث بھی ہو، اس کی دلیل امام بخاری اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب اور عشا کی نماز بارش والی رات میں جمع فرمائی۔ یہی عمل سیدنا ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی کیا، تاہم محض شبنم اور ہلکی بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں مشقت نہیں پائی جا رہی۔ یہی حنبلی موقف ہے۔
اسی طرح ظہر اور عصر کی بجائے صرف مغرب اور عشا کی نماز برفباری اور اولو کی وجہ سے جمع کی جا سکتی ہے؛ کیونکہ ان دونوں کا حکم بھی بارش والا ہے۔
پانی کی برف جمنے کی صورت میں بھی مغرب اور عشا کی نماز جمع کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ شدید سردی کی وجہ سے جمتی ہے، ایسے ہی کیچڑ اور شدید ٹھنڈی ہوا کی صورت میں بھی مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔
میمونی رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما سردی کی راتوں میں رات کی دونوں نمازیں جمع کر لیا کرتے تھے۔ جبکہ المذھب، المستوعب، اور الکافی جیسے فقہی مصادر میں یہ بھی اضافہ ہے کہ جب اندھیرا بھی ہو تب بھی جمع کر لیتے تھے۔
قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر احادیث وغیرہ میں اولو کی وجہ سے نمازیں جمع کرنے کا ذکر موجود ہے تو پھر اس میں کیچڑ کی صورت میں نمازیں جمع کرنے کی طرف اشارہ ہے؛ کیونکہ اولو کی وجہ سے حاصل ہونے والی تنگی کیچڑ کی مشقت سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کی طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اشارہ موجود ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں نمازیں جمع فرمائیں۔ اس حدیث کو صرف کیچڑ پر ہی محمول کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور احتمال ہے ہی نہیں۔ یعنی اگر بیماری اس میں شامل نہ کریں تو کیچڑ کے علاوہ کوئی اور احتمال نہیں بچتا ۔
قاضی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث کو کیچڑ پر محمول کرنا ، بلا عذر نمازیں جمع کرنے سے بہتر ہے، اور اس سے بھی بہتر ہے کہ اسے نسخ کے باب میں شامل کیا جائے؛ کیونکہ کیچڑ پر محمول کرنے سے ایک نیا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ چنانچہ مذکور عذروں کی صورت میں مغرب اور عشا کی نماز جمع کرنا جائز ہے، حتی کہ ایسے شخص کے لیے بھی جو گھر میں نماز ادا کر رہا ہو، یا ایسی مسجد میں نماز ادا کر رہا ہو جو اس چھتے ہوئے راستے میں آتی ہے، یا مسجد میں مقیم کے لیے بھی یا ایسے شخص کے لیے بھی جائز ہے جس کا گھر مسجد سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے، اگرچہ اسے تھوڑی سی ہی مشقت اٹھانی پڑے گی؛ کیونکہ رخصت عام ہے، اس میں مشقت کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہیں جیسے کہ سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔ مذکور اعذار صرف مغرب اور عشا کے لیے خاص اس لیے ہیں کہ یہ رخصت صرف انہی دو نمازوں کے لیے وارد ہوئی ہے، نیز ان دو نمازوں کی ادائیگی میں مشقت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ اندھیرے میں پڑھی جاتی ہیں، سفر میں نمازیں جمع کرنے کی رخصت اس لیے بھی ہے کہ سفر جلدی ختم ہو اور قافلہ نہ بچھڑے، جبکہ ظہر اور عصر کی نماز میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔" مختصراً ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ظہر اور عصر کی نماز کے بارے میں بھی کہا ہے کہ انہیں بھی مذکور اعذار کی وجہ سے جمع کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ انہیں وقت پر ادا کرنے کی صورت میں مشقت پائی جاتی ہو۔
آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مسئلے میں صحیح موقف یہ ہے کہ: مذکورہ عذروں کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرنا بھی اسی طرح جائز ہے جیسے مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کرنا جائز ہے، جمع کرنے کی رخصت مشقت کی وجہ سے ہے، لہذا مشقت کسی بھی وقت پائی جائے دن ہو یا رات نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (4/393)
آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت سردی بہت زیادہ ہو اور ہوا اتنی تیز ہو کہ لوگوں کو اذیت ہو رہی ہو تو پھر انسان کو ظہر اور عصر کی نماز ، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز جمع کرنے کی اجازت ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نمازیں جمع فرمائیں۔ سامعین نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نمازیں جمع کرنے کا کیا مقصد تھا؟ تو آپ رضی اللہ عنہما نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ چاہتے تھے کہ اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈالیں۔
تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات سے واضح ہوتا ہے کہ نمازوں کو جمع کرنے کا مقصد مسلمانوں کو تنگی سے نکالنا تھا، چنانچہ اگر مشقت ہو گی تو نمازیں جمع کرنا جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے۔ سردی کی صورت میں مشقت تب ہو گی جب ٹھنڈی ہوا بھی ہو، لیکن صرف سردی ہو ٹھنڈی ہوا ساتھ نہ ہو تو سردی سے بچاؤ کے لیے اوپر نیچے کئی چیزیں لے کر اپنا تحفظ کر سکتا ہے اس طرح سردی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ اسی لیے اگر کوئی سوال کر دے کہ: محض شدید سردی کی بنا پر نمازیں جمع کرنا جائز ہے؟ تو ہم کہیں گے : جائز نہیں ہے؛ ہاں اگر سردی کے ساتھ لوگوں کے لیے نقصان دہ ٹھنڈی ہوا بھی ہو تو جائز ہے۔ یا سردی کے ساتھ برفباری بھی ہو رہی ہو؛ کیونکہ برفباری سے لوگوں کو مشقت ہوتی ہے، اس لیے برفباری میں نمازیں جمع کرنا جائز ہے، جبکہ صرف سردی نمازوں کو جمع کرنے کے لیے عذر نہیں بن سکتی؛ لہذا گر کوئی شخص صرف سردی کی وجہ سے نمازوں کو جمع کر لے تو اس نے شرعی عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کیا ہے۔ نیز اسے بلا عذر نمازیں جمع کرنے پر گناہ بھی ہو گا، اور پہلی نماز کے ساتھ جمع کی گئی دوسری نماز صحیح نہ ہو گی، اسے شمار نہیں کیا جائے گا؛ لہذا وہ نماز اسے دہرانا ہو گی۔ اور اگر پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا ہے تو پھر پہلی نماز وقت گزرنے کے بعد پڑھی ہے اور اس تاخیر کی وجہ سے وہ گناہ گار بھی ہے۔
میں نے اس مسئلے کی وضاحت اس لیے کی ہے کہ مجھے کچھ لوگوں نے بتلایا کہ دو رات قبل بعض افراد نے صرف سردی کی وجہ سے دو نمازیں جمع کی ہیں حالانکہ صرف سردی تھی ٹھنڈی ہوا بھی نہیں چل رہی تھی تو ان کا یہ عمل ان کے لیے حلال نہیں ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (18/1)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب