ميں نے تين طلاق كى قسم اٹھائى كہ اگر يا تو ميرا فلاں دوست دوكان پر كام كريگا، يا پھر ميں دوكان سے چلا جاؤنگا يا وہ جائيگا، اس كے بعد ميں چلا گيا، حالانكہ ميں اور ايك دوسرا شخص دوكان ميں شراك تركھتے ہيں، برائے مہربانى مجھے درج ذيل سوالات كا جواب ديں:
1 ـ كيا طلاق كى نيت سے غصہ كى حالت ميں طلاق صحيح ہوتى ہے يا نہيں ؟
2 ـ كيا تين طلاق شمار ہونگى يا كہ ايك ہى طلاق ؟
3 ـ اور اگر اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا تو كيا اس كا كفارہ ادا كرنا ہوگا ؟
4 ـ جناب مولانا صاحب ميں كيا كروں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
طلاق كى قسم اٹھائى كہ فلان شخص اس كے پاس ملازمت نہيں كريگا يا وہ خود نكل جائيگا
سوال: 147560
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس كسى شخص نے بھى طلاق دينے كے مقصد سے طلاق كى قسم اٹھائى تو قسم ٹوٹنے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، اس پر سب علماء كا اتفاق ہے.
اور اگر غصہ كى حالت ميں ہو تو اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر (96194 ) اور (22034 ) كے جوابات ميں ہوا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر طلاق كے مقصد كے بغير قسم اٹھائى جائے، اور اس سے اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كسى كام كى ترغيب دلانا يا اپنے آپ يا كسى دوسرے كو روكنا مقصود ہو، تو يہ قسم كے حكم ميں آتا ہے، قسم ٹوٹنے كى صورت ميں قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوم:
ايك ہى مجلس ميں اور الفاظ ميں تين طلاق بولنے سے ايك ہى طلاق واقع ہوگى، راجح قول يہى ہے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر (96194 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.
اس بنا پر اگر آپ نے اپنى قسم سے طلاق مراد لى تھى اور آپ كا غصہ بھى اس قسم ميں شامل نہيں ہوتا جو طلاق واقع ہونے ميں مانع ہو تو آپ دونوں كا ايك ہى دوكان ميں رہنے سے ايك طلاق واقع ہو جائيگى.
ليكن اگر وہ دوكان سے چلا گيا، يا پھر آپ چلے گئے تو كچھ لازم نہيں آئيگا.
انسان كو طلاق كے الفاظ ايسى جگہ استعمال كرنے سے گريز كرنا چاہيے جہاں وہ استعمال نہيں كيے جاتے، اور اسے اللہ كى حدود كا پاس كرنا چاہيے، تا كہ اپنے گھر كى بھى حفاظت ہو اور خاندان كى بھى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات