عبادات توقیفی ہیں، کا کیا مطلب ہے؟
فقہائے کرام کی بات: “عبادات توقیفی ہیں” کا کیا مطلب ہے؟
سوال: 147608
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
علمائے کرام کہتے ہیں: "عبادات توقیفی ہیں"، یا پھر "عبادات کی بنیاد توقیف ہے" کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی کی کوئی بھی عبادت اپنی طرف سے کرنا جائز نہیں ہے، تا آں کہ نصوص شریعت یعنی کتاب و سنت میں وہ عبادت ثابت ہو کہ یہ اللہ تعالی کی عبادت ہے۔
لہذا کوئی بھی عبادت شرعی دلیل کے بغیر جائز نہیں ہے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر میں نے اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا ہے۔[المائدۃ: 3] چنانچہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے دین مکمل کر دیا تو جس کو اللہ تعالی نے ہمارے دین میں شامل نہیں فرمایا تو وہ دین نہیں ہو سکتا۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی چیز جو تمہیں جنت کے قریب کرے یا جہنم سے دور کر دے تو وہ تمہارے لیے واضح کر دی ہے)
اس حدیث کو طبرانی نے معجم الکبیر: (1647) میں روایت کیا ہے، اور البانی نے سلسلہ صحیحہ: (1803) میں صحیح قرار دیا ہے۔
چنانچہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لیے دین کا حصہ نہیں بنایا تو وہ بھی ہمارے لیے دین نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اصول شریعت کے استقرا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جن عبادات کو اللہ تعالی نے واجب قرار دیا، یا جن عبادات کو پسند فرمایا ہے وہ عبادات شریعت کی رو سے ہی ثابت ہوں گی۔ البتہ عادات یعنی لوگوں کے عمومی زندگی گزارنے کے طور طریقے جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ ان میں ممانعت نہیں ہے، لہذا ان میں سے صرف اسی کام کو منع قرار دیا جائے گا جنہیں اللہ تعالی نے منع قرار دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امر اور نہی دونوں ہی اللہ تعالی کی شریعت ہیں، اور عبادت کے لیے لازمی ہے کہ اس کا حکم موجود ہو، چنانچہ جب تک کسی چیز کے بارے میں شرعی حکم کا علم نہیں ہو گا تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ کام عبادت ہے؟ اور اسی طرح جس رسم یا رواج کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو کہ یہ شریعت میں منع ہے تو اس پر کیسے حکم لگایا جائے گا کہ وہ کام منع ہے؟
اسی لیے محدثین فقہائے کرام کہا کرتے تھے کہ: عبادات میں اصل توقیف ہے، اس لیے جس چیز کو اللہ تعالی نے شریعت میں شامل فرمایا وہی شریعت میں شامل ہو گا، وگرنہ ہم بھی اللہ تعالی کے اس فرمان کی زد میں آ جائیں گے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّه ترجمہ: یا ان کے شریک ہیں جو ان کے لیے دین میں ایسی چیزیں شامل کرتے ہیں جن کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی۔ [الشوری: 21]
جبکہ عادات کے بارے میں اصل یہ ہے کہ زندگی گزارنے کا کوئی بھی طور طریقہ اپنا سکتے ہیں، اس لیے جس کام کو بھی اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے صرف وہی حرام ہے، وگرنہ ہم اللہ تعالی کے اس فرمان کی زد میں آ جائیں گے: قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا
ترجمہ: کہہ دیجیے: تم بتلاؤ کہ جو کچھ اللہ تعالی نے تمہارے لیے نازل کیا ہے تو تم نے ان میں سے حرام اور حلال بنا دیے ہیں![یونس: 59] ا سی لیے اللہ تعالی نے مشرکین کی مذمت فرمائی کہ انہوں نے دین میں ایسی چیزیں شامل کر دیں جن کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی، اور دنیاوی معاملات میں سے ایسی چیزیں حرام کر ڈالیں جنہیں اللہ تعالی نے حرام قرار نہیں دیا ۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/16-17)
الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عبادات توقیفی ہیں، تو جو چیزیں اللہ تعالی اور اس کے رسول نے شریعت میں شامل کی ہیں وہ مطلق طور پر شریعت کا حصہ ہیں، اور جو چیزیں کسی جگہ یا وقت کے ساتھ شریعت میں مقید کی گئی ہیں وہ انہیں جگہوں اور اوقات کے ساتھ مقید کی جائیں گی۔" ختم شد
"فتاوى ورسائل محمد بن إبراهيم" (6/75)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"عبادات کی بنیاد توقیف پر ہے، اس لیے کسی بھی عمل کے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ عمل اپنی اصل، عدد، کیفیت، یا جگہ کے اعتبار سے عبادت ہے، جب تک کہ کوئی دلیل نہ ہو۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (3/73)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عبادات میں اصل ممانعت ہے ، اس لیے کسی بھی شخص کے لیے عبادت کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے جو اللہ تعالی نے شریعت میں شامل نہیں کیا، وہ طریقہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ہونا چاہیے، لہذا اگر کسی شخص کو عبادات کے حوالے سے یہ شک پیدا ہو کہ یہ عبادت ہے یا نہیں، تو اصول یہ ہے کہ وہ عمل عبادت نہیں ہے تا آں کہ اس کے عبادت ہونے کی دلیل مل جائے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (169/1)
اسی طرح الشیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"عبادات توقیفی ہوتی ہیں، کسی بھی وقت یا جگہ، یا کسی عبادت کا طریقہ شارع کے حکم سے ہی اپنایا جائے گا، چنانچہ اگر کوئی شخص عبادات کی جگہ، وقت اور کیفیت کے حوالے سے کوئی چیز ایجاد کرے تو وہ بدعت کہلائے گا۔" ختم شد
المنتقى من فتاوى الفوزان" (16/13)
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب