اكثر اوقات ميں بيوى سے نماز فجر كے بعد جماع كرتا ہوں يا پھر ہم نماز سے قبل ہى غسل كر ليتے ہيں كيونكہ مجھے علم ہے كہ وہ جنابت كے عذر كى بنا پر نماز ميں سستى كر جاتى ہے، كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
ميں نے ديكھا ہے كہ ميرى بيوى اللہ اسے بركت عطا كرے نماز فجر كے ليے صرف ان دنوں ميں بيدار ہوتى ہے جب بچوں نے سكول جانا ہوتا ہے، كيونكہ انہوں نے نماز فجر كے فورا بعد جانا ہے ہوتا ہے اس ليے بيدار ہو جاتى ہے.
ليكن چھٹى كے ايام جمعرات اور جمعہ ميں وہ سورج نكلنے كے بعد ہى نماز ادا كرتى ہے، ميں نے اسے بہت نصيحت كى ہے، ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، بہت ہى نادر مواقع پر مانى ہے، برائے مہربانى آپ اس كا كوئى حل بتائيں، اللہ تعالى آپ كے ذريعہ اسلام اور مسلمانوں كو نفع دے.
بيوى نماز فجر كے ليے بيدار نہيں ہوتى
سوال: 148359
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
فجر كے وقت نماز سے قبل يا بعد ميں جماع كو مربوط كرنے ميں كوئى حرج نہيں، تا كہ آپ كى بيوى كے ليے نماز فجر كى ادائيگى ميں ممد و معاون ثابت ہو، يہ ايك اچھى نيت ہے، ليكن بيوى كے حقوق استمتاع اور اس كى حاجت پورى كرنے كے حق كا بھى خيال ركھنا ہوگا، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے اس كے ليے بيدار كرنے سے ہو سكتا ہے اس كى رغبت كم ہو جائے اور اس طرح اس كى ضرورت پورى نہ ہو، لہذا اس وقت اس كا خيال كرنا لازم ہے.
دوم:
خاوند پر اپنى بيوى كے سلسلہ ميں بہت بڑى ذمہ دارى ہے، اسے خير و بھلائى پر ابھارے، اور اسے شر و برائى سے بچا كر ركھے، اور اسى طرح ہلاكت و تباہى والے اسباب سے محفوظ ركھے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے بچاؤ، جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر شديد قسم كے فرشتے مقرر ہيں جو اللہ كے حكم كى نافرمانى نہيں كرتے، اور وہى كچھ كرتے ہيں جو انہيں حكم ديا جاتا ہے التحريم ( 6 ).
اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” خبردار تم سب ذمہ دار ہو اور تم سب سے اس كى رعايا كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى…… اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اور وہ ان كا جوابدہ ہے “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7138 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
بخارى اور مسلم نے معقل بن يسار المزنى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
” اللہ تعالى جس بندے كو بھى كسى رعايا كا سردار بناتا ہے اور جب وہ اپنى رعايا كے ساتھ دھوكہ كرتے ہوئے مرے تو اللہ تعالى اس پر جنت حرام كر ديتا ہے “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7151 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).
اور پھر نماز تو كلمہ شہادت كے بعد دين اسلام كا سب سے عظيم ركن ہے، نماز كى ادائيگى ميں سستى كرنے والا بہت ہے خطرہ ميں ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
پھر ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے كہ انہوں نے نماز ضائع كر دى اور نفسانى خواہشوں كے پيچھے پڑگئے، سو ان كا نقصان ان كے آگے آئےگا مريم ( 59 ).
اگر كچھ دنوں بيوى نماز فجر سے سوئى رہتى ہے تو اسے جگانا اور متنبہ كرنا واجب ہے، اور اس سلسلہ ميں اسباب مہيا كريں، يعنى نماز ميں سستى و كوتاہى كرنے كا حكم بيان كريں اور اسے نماز كى بروقت ادائيگى كى ترغيب دلائيں.
اور پھر اس بات كى ضرورت ہے كہ خاوند اور بيوى دونوں ہى خير و بھلائى ميں ايك دوسرے كا تعاون كريں، اور گناہ والے كاموں سے دور رہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كى مدح سرائى كى ہے جو اپنى بيوى كو قيام الليل كے ليے بيدار كرنے كے ليے بيوى پر پانى كے چھينٹے مارے تو پھر فرضى نماز كے ليے بيدار كرنے ميں كيا كچھ ہوگا.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اللہ تعالى اس شخص پر رحم كرے جو رات كو اٹھ كر نماز ادا كرتا اور اپنى بيوى كو بيدار كرتا ہے، اگر وہ انكار كرے تو اس كے چہرے پر پانى كے چھينٹے مارتا ہے.
اللہ تعالى اس عورت پر رحم فرمائے جو رات كو اٹھ كر قيام كرتى اور اپنے خاوند كو بيدار كرتى ہے، اگر خاوند بيدار ہونے سے انكار كرے تو اس كے چہرے پر پانى كے چھينٹے مارتى ہے “
مسند احمد حديث نمبر ( 7404 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 1308 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1610 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
تو يہ بيدار كرنے كے وسائل ميں شامل ہوتا ہے كہ: اسے جلد سونے كا كہا جائے، اور رات كو بيدار رہنے سے منع كيا جائے.
اور آپ بيوى كو بڑے نرم اور اچھے رويہ ميں نصيحت كريں، كيونكہ جس چيز ميں بھى نرمى آ جائے وہ اسے خوبصورت بنا ديتى ہے، جب وہ نماز ادا كرے تو انعام دے اور اس كى حوصلہ افزائى كى جائے.
اور آپ اسے يہ ياد كرائيں كہ نماز سعادتمندى اور توفيق كى كنجى ہے، اور وسعت رزق كے اسباب ميں سے ايك سبب ہے، اور اچھى زندگى كا باعث بنتى ہے.
اگر تو اس كا نتيجہ اچھا ہو اور اس كى اصلاح ہو جائے اور حالت بدل جائے تو يہى مطلوب تھا، ہم اس كے ليے يہى اميد كرتے اور اس كے ليے يہى پسند كرتے ہيں، اور اگر وہ اس ميں مسلسل كوتاہى كرتى ہے تو پھر سختى اور شدت كا سہارا لينے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا اس سے بائيكاٹ كيا جائے ليكن يہ مصلحت كے مطابق ہو.
كيونكہ بعض اوقات سختى ہى مصلحت و حكمت ہوتى ہے، جيسا كہ عربى شاعر كا قول ہے:
سخت ہو جاؤ تا كہ وہ ڈر جائيں، اور جو عقلمند ہو تو وہ بعض اوقات اس پر سختى كرے جس پر نرمى كرتا تھا.
اس سب كچھ كا مقصد تو بيوى كى اصلاح ہے، اس ليے ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ صبر و تحمل سے كام ليں اور اسے مت ڈانٹيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اپنے گھر والوں كو نماز كا حكم دو اور اس پر صبر كرو طہ ( 132 ).
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو توفيق سے نوازے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب