ميرى چھ ماہ قبل شادى ہوئى اور ميں اپنے خاوند كے ساتھ سعودى عرب ميں رہ رہى ہوں، ميرا خاوند مصرى ہے اور ميں اصلا جرمن ہوں اور امريكہ كى شہريت حاصل كر ركھى ہے، ميرا خاوند مجھے طلاق دينا چاہتا ہے كيونكہ ميں نے ساس سسر سے عليحدہ رہائش كا مطالبہ كيا تھا حالانكہ ہم اس وقت خاوند كے والدين كے ساتھ نہيں رہتے بلكہ وہ مصر ميں رہتے ہيں.
وہ چند ہفتے قبل مصر جانے سے پہلے ہمارے ہاں سعوديہ ميں تين ماہ رہ كر گئے ہيں ميرا خاوند بھى واپس جانے كا سوچ رہا ہے اور والدين كے ساتھ ہى رہنا چاہتا ہے، تا كہ ميں اس كے والدين كى خدمت كر سكوں، ميں نے خاوند كو بتايا اس كا والدين كے بارہ ميں سوچنا اور ان سے محبت ركھنا ايك اچھى چيز ہے، ليكن ميں ايك بيوى كى حيثيت سے مستقل طور پر اس كى والدين كے ساتھ ايك ہى گھر ميں نہيں رہ سكتى، اس نے وعدہ كيا ہے كہ ہم اسى گھر ميں اوپر والى منزل پر رہيں گے تا كہ والدين كى خدمت كر سكيں، اور ان كى ضروريات پورى كى جائيں، ميں نے اسے بتايا كہ اسلامى اور شرعى طور پر يہ ميرا كام نہيں كہ ميں ان كى خدمت كروں، اس ليے كہ اسلام ميں كوئى ايسى نص اور دليل نہيں ملتى جو اس كے نظريہ كى دليل ہو.
اس طرح ميرے بھى والدين ہيں ان كى خدمت كرنا بھى مجھ پر فرض ہے، اور ان سے صلہ رحمى كرنا اور ان كى ضروريات پورى كرنا مجھ پر بھى عائد ہونگى، ميرا خاوند اس پر متفق ہے كہ ميرے والدين كو جب بھى ميرى ضرورت ہوگى وہ ان كى خدمت كے ليے مجھے جانے سے منع نہيں كريگا، ليكن جب ابھى اس كى ضرورت نہيں تو ميرے والدين كى خدمت كرو، ميں نے سوچا ہے كہ يہ ہے تو اچھا ليكن اگر مجھ سے اس كے والدين كى خدمت صحيح نہ ہو سكى يا پھر ميرا خاوند اس پر مطمئن نہ ہوا تو يہ مجھے طلاق كا باعث بن سكتا ہے، ليكن ميں ايسا پسند نہيں كرتى، كيونكہ اس كے والدين كى خدمت اور گھر كى ديكھ بھال ميرا ذمہ نہيں ہے، ميں نے واضح كيا ہے كہ مجھے ان كى خدمت ميں كوئى اعتراض نہيں اگر ميرا گھر ان كے قريب ہى ہوا تو ميں ان سے اچھے تعلقات ركھوں گى اور ان كى ديكھ بھال بھى كرونگى اور ضرورت كے وقت گھريلو معاملات ميں بھى ہاتھ بٹاؤں گى ليكن ميں مستقل طور پر ايسا پسند نہيں كرتى، مثلا يہ كہ اگر ايسا نہ كروں تو مجھے سزا دى جائے يا پھر اسے مجھ پر لازم كيا جائے يا پھر اس كى مرضى كے مطابق نہ ہو تو مجھ پر دباؤ ڈالا جائے.
ميں نے اس سے پورى وضاحت كے ساتھ بات كى ہے ليكن وہ مجھے طلاق دينا چاہتا ہے كيونكہ ميں اپنى ساس اور سسر كے ساتھ ايك ہى گھر ميں نہيں رہنا چاہتى، كيونكہ مجھے تجربہ ہے كہ ان كے ساتھ رہنے سے مجھے اپنى خصوصيت اور خاوند كے ساتھ خاص وقت بسر كرنے سے بھى ہاتھ دھونا پڑيں گے، كيونكہ گھر كے كام كاج ميں مصروف رہوں گى، افسوس ہے كہ انہوں نے اور باقى رشتہ داروں نے ميرى غيبت بھى كرنا شروع كر دى ہے جس كا خاوند كو علم نہيں، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت فرمائيں تا كہ خاوند كے ساتھ محبت و مودت اور نرمى كے ساتھ معاملہ طے كر سكوں دو دن سے تو وہ ميرے ساتھ سوتا بھى نہيں بلكہ عليحدہ كمرہ ميں اكيلا سوتا ہے، برائے مہربانى ميرى مدد كريں.
والدين سے عليحدہ مستقل رہائش كا مطالبہ كرنے پر خاوند طلاق كى دھمكى ديتا ہے
سوال: 148387
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ازدواجى زندگى حسن معاشرت اور بات چيت اور محبت و مودت اور افہام و تفہيم اور ايك دوسرے كے حقوق كى پہچان اور واجب اور افضل كے مابين فرق كرنے پر قائم ہونى چاہيے، كيونكہ ان سب امور كو مدنظر ركھنے سے خاوند اور بيوى سعادت مند زندگى بسر كر سكتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے بھى اسى طرح كے حقوق ہيں جس طرح ان عورتوں پر ( مردوں كے ) ہيں اچھے طريقہ سے، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).
خاوند اور بيوى كے مابين اختلاف كے وقت كتاب و سنت يعنى شريعت اسلاميہ كى طرف رجوع كرنا چاہيے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر تم كسى چيز ميں اختلاف و تنازع كر بيٹھو تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہتر ہے اور اس كا انجام بھى اچھا ہے النساء ( 59 ).
دوم:
بيوى كا حق ہے كہ اسے عليحدہ رہائش دى جائے جہاں وہ اپنے خاوند اور بچوں كے ساتھ رہ سكے، اور اس رہائش ميں كوئى اور شريك نہ ہو، نہ تو ساس اور سسر اور نہ ہى كوئى اور رشتہ دار.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
انہيں تم وہاں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اپنى استطاعت كے مطابق الطلاق ( 6 ).
جمہور فقھاء كرام جن ميں احناف شافعيہ اور حنابلہ شامل ہيں كا مسلك يہى ہے، ان كى رائے ہے كہ بيوى كو اپنى ساس اور سسر اور نندوں كے ساتھ رہنے سے انكار كرنے كا حق حاصل ہے.
آپ اس كى مزيد تفصيل سوال نمبر (94965 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.
سوم:
عورت پر اپنى ساس اور سسر كى خدمت كرنا واجب نہيں ہے، بلكہ وہ اسے مروت اور فضيلت سمجھ كر كرے، اور اپنے خاوند كى عزت و تكريم اور احترام كى خاطر اس كے والدين كى خدمت كرے تو اس ميں فقھاء كا كوئى اختلاف نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميرا سسر بيمار ہے اور وہ ہمارے ساتھ رہنے كے ليے آيا ہے اس كى بنا پر ہمارے مابين مشكلات پيدا ہو سكتى ہيں مجھے بتائيں كہ اس سلسلہ ميں ميرى ذمہ دارى كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” عورت پر اپنے سسر يا ساس يا خاوند كے كسى رشتہ دار كى خدمت كرنا واجب نہيں، بلكہ يہ چيز مروت ميں شامل ہوتى ہے كہ اگر وہ گھر ميں ہو تو ساس سسر كى خدمت كرے، ليكن خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى پر اس كو لازم كرے، كيونكہ يہ بيوى پر واجب نہيں، ميں يہ كہتا ہوں كہ سسر كى خدمت كرنے ميں بيوى كو صبر كرنا چاہيے، اور اسے يہ علم ركھنا چاہيے كہ اس سے اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں ہوگا، بلكہ ايسا كرنے پر اس كا خاوند اسے اور زيادہ پسند كريگا اور اسے شرف و مقام حاصل ہوگا ”
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے ” انتہى
ماخوذ از: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء و حل المشكلا الزوجيۃ ( 128 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ ہمارے اس مسئلہ ميں واجب بھى ہے اور افضل بھى، رہا واجب تو وہ خاوند پر واجب ہے كہ بيوى كے ليے عليحدہ اور خاص رہائش مہيا كرے جو بيوى چاہتى ہے اور رہا افضل اور فضيلت كى بات تو وہ يہ ہے كہ بيوى اپنى ساس اور سسر كى خدمت كرے، يہ كوئى انصاف كى بات نہيں كہ خود واجب ترك كرتا پھرے اور دوسرے سے فضيلت اور افضل چيز كا مطالبہ كرے.
والدين سے محبت اور ان كى عزت و احترام اور ان سے حسن سلوك كرنے كى حرص ركھنے پر خاوند كى تعريف كى جائيگى، اور اسى طرح آپ بھى قابل تعريف ہونگى كہ اپنى ساس اور سسر كى ديكھ بھال كريں، يہ نيك و صالح عمل ہے اللہ تعالى آپ كو اس كا اجروثواب دےگا.
ہمازى عزيز بہن ہم آپ كو نصيحت كرتے ہوئے ذيل ميں چند ايك باتيں كہيں گے:
1 ـ آپ ازدواجى زندگى كى اساس اور بيناد بات چيت اور افہام و تفہيم اور شريعت كو حاكم بنا كر قائم كريں.
2 ـ آپ خاوند كو عليحدہ رہائش مہيا كرنے پر مطئمن اور راضى كريں، جس كے نتيجہ ميں اس كو ہى راحت و سكون حاصل ہوگا.
3 ـ جب تك آپ اپنى ساس سسر سے دور رہتى ہيں اور آپ كے وہ محتاج نہيں تو آپ خاوند سے والدين كى خدمت كے متعلق بات چيت مت كريں، بلكہ آپ كے ليے وہى اچھى كلام كافى ہے جو آپ نے ذكر كى ہے.
4 ـ آپ خاوند كے ليے كوئى عذر تلاش كريں، كيونكہ بعض معاشروں ميں لوگوں كے ہاں اصل يہى ہے كہ ساس اور سسر كے ساتھ رہ كر ان كى خدمت كى جائے، اور اس سے دور جانا اور ايسا نہ كرنا كوتاہى شمار ہوتى ہے، اور بيٹے كو والدين كا نافرمان اور بيوى كو والدين سے قطع رحمى پر ابھارنے والى شمار كيا جاتا ہے.
اس كے باعث خاوند اپنے والدين كے ساتھ مشكل ميں پڑ جائيگا اور وہ انہيں نہيں چھوڑ سكےگا، اور نہ ہى بيوى كى رغبت پورى كر سكےگا، تو اس حالت پر اثرانداز ہونے ميں وہ ايسى بيوى حاصل كر سكےگا جو اس كے والدين كے ساتھ رہ كر ان كى خدمت بھى كريگى.
اور خاوند كو چاہيے كہ وہ شادى كرنے سے قبل بتا دے تا كہ بعد ميں مشكلات پيدا نہ ہوں، اور وہ خاوند كو راضى كرنے كے ليے اپنے حق سے دستبردار ہونے پر مجبور نہ ہو، ليكن ايك عقلمند بيوى اس مسئلے كا علاج بڑى حكمت كے ساتھ كر سكتى ہے، اور نرمى كے ساتھ اپنى ضرورت بھى پورى كروا سكتى ہے.
5 ـ ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ كى طرف رجوع كرتے ہوئے دعا كا سہارا ليں اور اس سے توفيق و صحيح راہ طلب كريں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى سب سے بہتر مددگار اور نصرت كرنے والا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت اور رضا خوشنودى والے كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات