ميرے والد صاحب اپنے ملك واپس چلےگئے ہيں وہ كفريہ ملك ميں نہيں رہنا چاہتے تھے، اب وہ چاہتے ہيں كہ ان كا سارا خاندان بھى واپس چلا جائے، ليكن ميرى والدہ نہيں جانا چاہتى ان كا كہنا ہے كہ اولاد اپنى تعليم مكمل كر ليں كيونكہ اب يونيورسٹى كى تعليم شروع كرنے والے ہيں وہ ان پر ظلم نہيں كرنا چاہتى.
ميرا سوال يہ ہے كہ اگر ميرى والدہ ميرے والد صاحب كى بات نہيں مانتى تو كيا وہ گنہگار ہونگى يا نہيں، اور كيا اللہ تعالى انہيں اس كى سزا ديگا، اور اس سلسلہ ميں مجھے كيا كرنا چاہيے، كيونكہ ميرى والدہ واقعتا نہيں جانا چاہتى اور ميرى خالائيں بھى والدہ كو نہ جانے كا كہتى ہيں كيونكہ وہاں جنگ ہو رہى ہے كيا كيا جائے ؟
خاوند اپنے ملك واپس جانا چاہتا ہے جہاں جنگ جارى ہے كيا بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنا ہوگى ؟
سوال: 148906
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كفريہ ممالك ميں رہنے كى كچھ شروط ہيں ان شروط كے بغير وہاں رہنا جائز نہيں، اہم شروط ميں يہ ہے كہ:
وہاں مقيم شخص دين پر عمل كرنے والا ہو اور شہوت والى اشياء سے اجتناب كرے، اور علم و بصيرت ركھتا ہو جو ايسے شبہات سے محفوظ ركھے، اور دينى امور اور شعار كا اظھار كر سكتا ہو، اور اسے اپنے اور بيوى بچوں كے دين و عزت عصمت كا كوئى خطرہ نہ ہو.
اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13363 ) اور (27211 ) كا مطالعہ كريں.
دوم:
بيوى پر لازم ہے كہ وہ خاوند كى اطاعت كرتے ہوئے جہاں خاوند منتقل ہوا ہے وہيں اس كے ساتھ جائے، الا يہ كہ بيوى نے عقد نكاح ميں شرط ركھى ہو كہ اس كا خاوند اسے ملك اور علاقے سے كسى دوسرے ملك نہيں لے كر جائے گا تو پھر اس شرط پر عمل كيا جائيگا.
يا پھر اگر كسى دوسرى جگہ جانے ميں ظاہرا اور معتبر نقصان اور ضرر ہو جيسا كہ اگر كسى ايسے ملك ميں جانا چاہتا ہو جہاں جنگ ہو رہى ہے، اور ظن غالب ہو كہ وہاں جانے سے بيوى كو بھى نقصان وضرر ہو سكتا ہے، اور بيوى كو جيل وغيرہ بھيجا جا سكتا ہو.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ بيوى كو لے كر كہيں دوسرى جگہ سفر پر جائے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كو سفر پر لے كر جايا كرتے تھے، ليكن اگر سفر خطرناك ہو تو پھر بيوى كو ايسا كرنا لازم نہيں ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 223 ).
اور كشاف القناع ميں درج ہے:
” خاوند كو اپنى بيوى كو سفر پر لے جانے كا حق حاصل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اپنى بيويوں كو سفر پر اپنے ساتھ لے جايا كرتے تھے، ليكن اگر سفر خطرناك ہو، مثلا راستہ يا پھر جہاں جا رہا ہے وہ خطرناك ہو تو پھر بيوى كى اجازت كے بغير اسے سفر پر نہيں لے جا سكتا.
كيونكہ حديث ميں وارد ہے كہ:
” نہ تو خود ضرر اٹھائے اور نہ ہى كسى كو ضرر دے ”
يا پھر بيوى نے شرط ركھى ہو كہ وہ اپنے علاقے اور ملك سے باہر نہيں جائيگى تو اسے اپنى شرط پر ركھا جائيگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” سب سے زيادہ وہ شرطيں پورى كى جانے كى حقدار ہيں جن كے ساتھ تم شرمگاہ كو حلال كرتے ہو ” انتہى
اپنے بچوں كى تعليم كى بنا پر اسے اپنے خاوند كے ساتھ جانے سے نہيں ركنا چاہيے كيونكہ تعليم تو كئى جگہوں پر حاصل كى جا سكتى ہے، اور پھر تعليم كے كئى وسائل و طريقے ہيں مثلا گھر بيٹھ كر تعليم حاصل كرنا، اور پرائيويٹ طور پر بھى، اولاد كى منفعت كى خاطر بيوى كا اپنے خاوند كى نافرمانى كرنا صحيح نہيں ہے.
سوم:
آپ پر بھى اپنے والد كى اطاعت كرنا لازم ہے، اگر وہ آپ كو اپنے ساتھ لے جانا چاہے تو آپ انكار مت كريں، ليكن اگر آپ كے ملك ميں آپ كو كوئى خطرہ ہو تو پھر نہيں، والد كے مقام و مرتبہ اور حقوق تو كسى پر مخفى نہيں، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے بھى والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا حكم ديا ہے، اور اس حكم كو اللہ تعالى نے اس حكم كو اپنى اطاعت اور توحيد كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے.
اور يہ گمان ركھنا كہ والد اپنى اولاد كى مصلحت كا خيال نہيں ركھتا غالب طور پر يہ گمان غلط ہوتا ہے، كيونكہ باپ تو فطرتى طور پر اپنى اولاد كے ليے شفيق ہوتا ہے، ليكن بعض اوقات كسى دينى يا دنياوى مصلحت كى خاطر اس شفقت كو پس پشت ڈال ديتا ہے.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے بھى آدمى كو اپنى اولاد كى حفاظت كرنے اور انہيں تباہى اور نقصان كے اسباب سے محفوظ ركھنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں، اس پر ايسے فرشتے سخت اور شديد فرشتے مقرر ہيں جو اللہ كى معصيت و نافرمانى نہيں كرتے، اور جو انہيں حكم ديا جاتا ہے وہ اسے بجا لاتے ہيں التحريم ( 6 ).
اور حديث ميں وارد ہے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” خبردار تم ميں سے ہر ايك ذمہ دار اور حاكم ہے اور ہر ايك اپنى رعايا كا جواب دےگا، اور آدمى اپنے بيوى بچوں كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7138 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
امام بخارى اور مسلم رحمہم اللہ كى روايت كردہ ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ معقل بن يسار المزنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
” اللہ تعالى جس بندے كو بھى كسى كا ذمہ دار اور حاكم بنائے اور وہ شخص اپنى رعايا سے دھوكہ كرتا ہوا فوت ہو جائے تو اللہ تعالى اس پر جنت حرام كر ديتا ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7151 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 142 ).
اس ميں كوئى تعجب نہيں كہ ايك باپ اپنى اولاد كو كفريہ ممالك سے دور ركھنا چاہتا ہے، اور اسے ان كے خراب اور منحرف ہونے كا خدشہ ہے، وہ دنيا كے مقابلہ ميں دين كو ترجيج دے رہا ہے، اس ليے اگر اس كا اپنے ملك جانے ميں كوئى خطرہ نہيں بلكہ پرامن ہے تو اس كے سارے خاندان كو چاہيے كہ وہ اس كے ساتھ جائے اور اس كى اطاعت كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات