اگر والدہ اكيلى گھر كے اخراجات برداشت كرتى ہو اور الحمد للہ وہ اس كى طاقت بھى ركھتى ہے ليكن كسى حد تك خرچ كرنے ميں تھوڑا بہت تردد سے كام ليتى ہو، اور اپنى بيٹى كو خرچ تو ديتى ہے ليكن بيٹى كے ليے يہ خرچہ كافى نہيں ہوتا.
تو كيا حسب ضرورت بيٹى اپنى والدہ كى لاعلمى ميں كچھ پيسے لے سكتى ہے يا كہ ايسا كرنا حرام ہوگا، اور بيٹى كے ليے دعاء كى قبوليت ميں مانع بن سكتا ہے، يا ايسا كرنا حرام نہيں ؟
والدہ كى لاعلمى ميں پيسے لينا
سوال: 149347
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر والد فوت ہو چكا ہو، يا پھر والد اپنى اولاد كا خرچ برداشت نہ كر سكتا ہو، اور والدہ مالدار ہو تو اولاد كا خرچ ماں پر واجب ہو جاتا ہے كيونكہ انہيں اخراجات كى ضرورت ہوتى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر باپ تنگ دست ہو تو ماں پر نفقہ واجب ہو جاتا ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 11 / 373 ).
بيٹى كى شادى ہونے تك بيٹى كا خرچ والدين كے ذمہ ہے؛ كيونكہ شادى كے بعد اس كے اخراجات خاوند پر واجب ہو جائيگے.
مزيد آپ سوال نمبر (13464 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
اگر ماں اپنى بيٹى پر معروف و بہتر طريقہ سے كافى اخراجات كرتى ہو، تو بيٹى كے ليے اپنى والدہ كى اجازت كے بغير والدہ كا مال لينا جائز نہيں ہوگا.
ليكن اگر ماں اپنى بيٹى كو كھانے پينے اور لباس و تعليم و غيرہ كے ليے كافى ہونے كے اخراجات نہيں ديتى يعنى اس طرح كى لڑكى كو جتنا خرچ چاہيے نہيں ديتى تو پھر بيٹى كے ليے بہتر طريقہ سے ماں كى اجازت كے بغير مال لينا جائز ہوگا.
صحيح بخارى اور مسلم ميں ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
ہند بنت عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك بخيل شخص ہے، مجھے اور ميرے بچے كے ليے كافى رقم نہيں ديتا، اگر ميں اس كى لا علمى ميں كچھ لے لوں تو ہمارا گزارا ہوتا ہے ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اتنا مال لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كے ليے كافى ہو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يہاں المعروف سے مراد وہ مقدار ہے جو اس معاشرے ميں عادت كے مطابق كفائت و گزر بسر كے ليے ہو ” انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 509 ).
شيخ صالح فوزان اس حديث ميں وارد ” المعروف ” كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” آپ جو ليتى ہو وہ معروف اور بہتر طريقہ سے ہو، يعنى جو حاجت و ضرورت سے زائد نہ ہو، اور تمہيں اور تمہارى اولاد كو كافى ہو، اس سے زائد اشياء وغيرہ كے ليے نہ لو، بلكہ صرف ضرورى اشياء كے ليے جتنا كافى ہو لے ليا كرو ” انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 69 / 27 ).
اس ليے جب بيٹى اپنى ماں كا مال بغير اجازت لے سكتى ہے تو اس كے اتنا كچھ ہى لينا جائز ہوگا جس پر وہ مجبور ہو يا اس كى بہت زيادہ ضرورت ركھتى ہو، ليكن اگر وہ خرچ زيادہ كرنے يا پھر لباس وغيرہ زيادہ لينے كے ليے ليتى ہے تو يہ جائز نہيں ہوگا، كيونكہ ايسا كرنا ناحق مال كھانے كے مترادف ہے، اور يہ فعل اس كى دعا كى عدم قبوليت كا بھى باعث ہوگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات