سوال: جس شخص کے پاس اپنے دوست یا بھائی کی رقم بطور امانت موجود ہو، اور اس پر سال گزر جائے، لیکن مالک کی طرف سے اسکی زکاۃ ادا نہ کی جائے تو کیا امانت رکھنے والے کو گناہ ہوگا؟ یاد رہے کہ جس شخص کے پاس امانت رکھی گئی ہے، اس نے اپنے مال کی زکاۃ دے دی ہے، اور یہ بھی واضح رہے کہ امانت رکھا ہوا مال امانتدار کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے کی وجہ سے ذاتی مال کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
امانتدار شخص امانت کے طور پر رکھے گئے مال پر زکاۃ ادا کردے؟
سوال: 150041
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
امانتدار شخص مالک کی اجازت کے بغیر امانت میں کسی قسم کا تصرّف نہیں کرسکتا۔
اور نہ ہی اس پر اسکی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے، کیونکہ وہ خود اس مال کامالک نہیں ہے، اور نہ ہی اس مال کے مالک کا نائب ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
“میرے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، میں ان امانتوں سے انہی کیلئے خرید و فروخت کرتا ہوں، اور ہر ماہ انکی قسطوں پر فروخت شدہ گاڑیوں کی اقساط اپنی قسطوں میں فروخت شدہ گاڑیوں کی اقساط کیساتھ وصول کرتا ہوں، اور اپنے مفاد کیلئے ان کی امانتوں سے نئی گاڑیاں بھی خریدتا ہوں، اور ان لوگوں نے ماہانہ اقساط سے حاصل ہونے والی آمدن کے بارے میں مجھے مکمل آزادی دے رکھی ہے، چنانچہ جب انکی گاڑیوں کی اقساط مکمل ہوجاتی ہیں تو میں انہیں انکا رأس المال، اور نفع پورا واپس کردیتا ہوں، ان میں سے ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، اور اگر وہ آئندہ تین سال کیلئے مزید یہی کام [قسطوں پر گاڑیوں کی خرید و فروخت]مجھ سے کروانا چاہیں تو میں کردیتا ہوں، اس طرح رقم قسطوں کی شکل میں مجھے واپس ملتی ہے، اور اسی دوران میری اپنی گاڑیوں کی قسطیں بھی مجھے موصول ہوتی ہیں، جیسے کہ میں نے سوال کی ابتداء میں وضاحت کردی تھی، تو ان رقوم کی زکاۃ کی ادائیگی کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ میں ادا کروں؟ یا اس رقم کے مالکان ادا کریں؟ یاد رہے کہ زکاۃ کی ادائیگی کے بارےمیں کسی قسم کا م کوئی مختار نامہ مجھے نہیں دیا گیا، اور نہ ہی انہوں نے زکاۃ ادا کرنے سے روکاہے۔
تو انہوں نے جواب دیا:
اول:بہتر یہ ہے کہ آپ کو جن لوگوں نے بطورِ امانت رقوم دی ہیں، انہی کے مفاد کیلئے سرمایہ کاری کریں، آپکو اس عمل کا اجر وثواب ملے گا، کیونکہ آپ ایسے لوگوں کیساتھ نیکی کر رہے ہیں جنہیں تجارتی لین دین نہیں کرنا آتا، لیکن اگر انہوں نے آپکو وقت مقررہ مکمل ہونے تک اقساط کی مد سے حاصل ہونے والی رقوم کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے تو آپکے اس عمل میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
دوم: ایسی رقم پر ہر سال زکاۃ واجب ہوگی جن سے قسطوں میں کاریں فروخت کی گئیں ہیں، اور اس زکاۃ کی ادائیگی ان رقوم کے اصل مالکان کرینگے، الّا کہ یہ لوگ آپکو اپنی طرف سے زکاۃ ادا کرنے کی ذمہ داری سونپ دیں، چنانچہ آپ انکی طرف سے زکاۃ مستحق لوگوں کو پہنچائیں گے، اور آپکو اچھے انداز سے نیکی کرنے کا اجر بھی ملے گا”انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (13 / 25-26)
چنانچہ زکاۃ کی ذمہ داری مال کے مالک پر ہے، اسکی طرف سے آپ پر زکاۃ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، لیکن آپ اسے نصیحت کریں کہ وہ اپنے مال کی زکاۃ مستحق افراد تک پہنچائے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)
نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔ المائدة/2
لہذا اگر وہ آپکی بات مان لے تو بہت اچھی بات ہے، اور اگر آپکی بات نہ مانے تو آپ اسکی رقم واپس کردیں، اس لئے کہ وہ اپنے مال کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا، اور اسکا حق ادا نہیں کر رہا، آپکا یہ عمل بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں شمار ہوگا، ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس رویّے سے سیدھے راستے پر آجائے، اور اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے مال کی زکاۃ ادا کردے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب