ہمارى شادى كو دس برس ہو چكے ہيں، ميرا خاوند اولاد نہيں پيدا كرنا چاہتا، ابتدا ميں تو يہ كہتا تھا كہ ہم ذرا حالات بہتر كر ليں تو پھر پيدا كريں گے، اور اب يہ كہتا ہے كہ ہميں كيا علم كہ يہ اولاد برى ہو چاہے ہم ان كى تربيت بھى اچھى كريں ليكن پھر بھى ہمارے ليے مشكلات پيدا كرنے كا باعث بنيں، اس طرح كى اور كئى غلط قسم كى باتيں كرتا ہے.
ميرا يہ سوال ہے كہ كيا اسے يہ دليل دے كر مجھے اولاد سے محروم ركھنے كا حق حاصل ہے، حالانكہ ميں نے شادى كى ابتدا ميں ہى اسے كہا تھا كہ ميں ماں بننا چاہتى ہوں، اور ايك گھريلو عورت بن كر رہنا چاہتى ہوں!!
ميرا خيال ہے كہ اسے ميرى اولاد كى تربيت كا شوق نہيں ہے، ليكن ميں يہ پسند كرتى ہوں، وہ ميرى ملازمت كا شوق ركھتا ہے، ليكن ميں يہ پسند نہيں كرتى، يہ علم ميں رہے كہ وہ نيك و صالح اور اچھا شخص ہے اور ميں اس سے محبت كرتى ہوں، برائے مہربانى آپ اسے كيا نصيحت كرتے ہيں ؟
ميں اس سے محبت تو بہت كرتى ہوں ليكن اس كى اس سلسلہ ميں سوچ تبديل نہيں كر سكتى، بلكہ مجھے خدشہ ہے كہ كہيں يہ محبت كراہت ميں نہ تبديل ہو جائے كيونكہ اولاد پيدا نہ كرنے ميں وہى سبب بن رہا ہے اور اس نے مجھے اولاد سے محروم ركھا ہوا ہے.
بلكہ اب تو اس كے بارہ ميں ميرى طبيعت ميں منفى پہلو پيدا ہونا شروع ہو گيا ہے، اور جو بھى كہتا ہے ميں آسانى سے اسے سچ نہيں مانتى، اس ليے برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں، اور يہ بتائيں كہ:
كيا مجھے حق حاصل ہے كہ منصوبہ بندى كے ليے وہ جو طريقہ بھى استعمال كرتا ہے ميں اسے كسى بھى حيلہ سے ناكام بنا سكتى ہوں ؟
دس برس سے بچے پيدا نہيں كرنے ديے كيا اولاد پيدا كرنے كے ليے كوئى حيلا كرنا جائز ہے ؟
سوال: 151643
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اولاد پيدا كرنا خاوند اور بيوى دونوں كا مشتركہ حق ہے اور دونوں ميں كوئى بھى اس حق كو اپنے ليے مخصوص نہيں كر سكتا.
اس ليے اگر بيوى اولاد پيدا كرنا چاہتى ہو تو خاوند اسے ايسا كرنے سے نہيں روك سكتا، اسى طرح فقھاء كرام كا فيصلہ ہے كہ آزاد عورت كا خاوند اس كى اجازت كے بغير عزل نہيں كر سكتا.
شيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل علم كا كہنا ہے كہ:
وہ آزاد عورت كى اجازت كے بغير عزل نہيں كر سكتا، يعنى: خاوند اپنى آزاد بيوى كى اجازت كے بغير بيوى سے عزل نہ كرے؛ كيونكہ بيوى كو بھى اولاد حاصل كرنے كا حق حاصل ہے، اور پھر بيوى كى اجازت كے بغير عزل كرنے ميں بيوى كو عدم استمتاع ہے، كيونكہ بيوى كو لذت اور استمتاع ہى خاوند كے عزل كے بعد حاصل ہوتى ہے.
اس بنا پر بيوى سے عزل كى اجازت نہ لينے ميں اس كے حق استمتاع ميں نقص پيدا كرنا ہے، اور اسے اولاد حاصل نہ كرنے دينا ہوگا، اس ليے ہم نے شرط لگائى ہے كہ بيوى كى اجازت سے ہى عزل كيا جائے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 190 ).
اس ليے آپ كے خاوند كو يہ جاننا چاہيے كہ يہ خاوند اور بيوى دونوں كا حق ہے، اور اس كے ليے آپ كى رضامندى كے بغير كوئى بھى ايسى چيز استعمال كرنى جائز نہيں جو حمل كے ليے مانع ہو.
دوم:
اولاد كى صحيح تربيت نہ كرنے يا پھر اولاد خراب ہونے كے خدشہ سے حمل ميں تاخير كرنا ايك ايسا امر ہے جس ميں اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ سوء ظن پايا جاتا ہے، كيونكہ شريعتا سلاميہ ميں تو كثرت اولاد كى ترغيب دلائى گئى ہے.
اور پھر مومن شخص كو اپنے اللہ كے ساتھ حسن ظن ركھنا چاہيے كہ اللہ اس كى اولاد كى اصلاح فرمائيگا اور اسے ہدايت سے نوازے گا، اور اگر لوگ اس خدشہ پر اعتماد كرنے لگيں تو پھر اولاد كم ہو اور شريعت اسلاميہ نے جو كثرت اولاد ك ترغيب دلائى ہے وہ پورى نہيں ہوگى.
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگا:
مجھے ايك حسب و نسب والى خوبصورت عورت كا رشتہ ملا ہے ليكن وہ بانجھ ہے اولاد پيدا نہيں كر سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں.
راوى بيان كرتے ہيں: وہ شخص دوبارہ پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ نے اسے منع كر ديا، اور پھر وہ تيسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے پيدا كرنے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت سے امتوں پر فخر كرونگا ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر (7205 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
مانع حمل دوائى استعمال كرنے ميں بيوى كو اپنے خاوند كى اطاعت كرنا لازم نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں بيوى كا حق ضائع ہوتا ہے، بلكہ وہ اس كے ليے كوئى ايسا حيلہ كر سكتى ہے جس كى بنا پر وہ نكاح كے شرعى مقصد كو پا سكے يعنى اولاد پيدا كر سكے.
اور بيوى كے ليے اس طرح كے وسائل سے صريحا انكار كرنے كا بھى حق ہے، اور اگر خاوند اپنے موقف پر قائم رہے اور اصرار كرے تو اپنے آپ سے ضرر دور كرنے كے ليے بيوى طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے.
آپ كے خاوند كو ہمارى نصيحت ہے كہ وہ اولاد پيدا كر كے امت ميں اضافہ كرے، اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اولاد اللہ سبحانہ و تعالى كى نعمت ہے، اور اس كى قدر وہى جانتا ہے جو اس نعمت سے محروم ہے، اور بيوى كو اولاد كى نعمت سے محروم ركھنا اس كى حق تلفى كرنا اور اس پر ظلم و زيادتى كہلاتا ہے.
ہم آپ كے سامنے اس مسئلہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى ايك بہت ہى قيمتى نصيحت پيش كرتے ہيں:
شيخ سے رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك نوجوان شادى شدہ ہے اور اس كے تين بچے بھى ہيں مختصر يہ كہ وہ نوجوان كہتا ہے:
ميں اور بيوى دونوں نے فيصلہ كيا ہے كہ اب اولاد پيدا نہ كى جائے تا كہ ہم اپنى اولاد كى صحيح اسلامى تربيت كر سكيں، برائے مہربانى بتائيں كہ آپ كى نظر ميں كيا حل ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
يہ حل صحيح نہيں، يعنى اولاد پيدا كرنے سے رك جانا صحيح نہيں ہے، اس ليے كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى راہنمائى كے خلاف ہے كيونكہ آپ كا فرمان ہے:
” ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے پيدا كرنے والى ہو، ميں تمہارے زيادہ ہونے پر روز قيامت فخر كرونگا ”
اور اس ليے بھى كہ انسان كو علم نہيں ہے، ہو سكتا ہے جو بچے اس كے پاس ہيں وہ فوت ہو جائيں اور وہ بغير اولاد رہ جائے، اور يہ علت بيان كرنا كہ يہ ايسا كيا جا رہا ہے تا كہ ان كى تربيت پر كنٹرول كيا جا سكے، اور ان كے اخراجات كى ادائيگى صحيح طرح كر سكے، يہ فى الواقع ايك كمزور اور بودى سے تعليل ہے.
كيونكہ اصلاح تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاتھ ميں ہے اور بلاشك تربيت تو صرف ايك سبب ہے، كتنے ہى ايسے انسان ہيں جن كا صرف ايك ہى بچہ ہے ليكن وہ اس كى تربيت كرنے سے ہى عاجز ہے.
ليكن كئى لوگ ايسے بھى ہيں جن كے دس بچے ہيں اور اس نے اپنے بچوں كى تربيت بھى كى اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے ہاتھوں بچوں كى اصلاح فرما دى، جو شخص يہ كہتا ہے كہ اگر بچے زيادہ ہو گئے تو وہ ان پر كنٹرول نہيں كر سكے گا وہ اللہ عزوجل كے ساتھ سوء ظن كر رہا ہے، اور ہو سكتا ہے اسے اس سوء ظن كى سزا بھى بھگتى پڑے.
بلكہ يقين ركھنے والا مومن شخص تو شرعى اسباب اختيار كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى سے معاونت و توفيق طلب كرتا ہے، اور جب اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندے كا صدق و سچائى اور صدق نيت ديكھتا ہے تو اس كے معاملات كى اصلاح فرما ديتا ہے.
اس ليے ميں سوال كرنے والے بھائى سے گزارش كرتا ہوں كہ تم ايسا مت كرو، اور منصوبہ بندى كرتے ہوئے اولاد پيدا كرنا بند مت كرو، اولاد پيدا كرنا بند مت كرو، بلكہ حسب استطاعت جتنى زيادہ اولاد پيدا كر سكتے ہو پيدا كرو، كيونكہ ان كا رزق اور ان كى اصلاح اللہ كے ذمہ ہے.
آپ انكى جتنى زيادہ تربيت كرينگے آپ كو اجر بھى اتنا ہى زيادہ ملےگا، اس ليے اگر آپ كے تين بچے ہيں اور آپ كى ان كى اچھى تربيت كرتے ہيں تو پھر آپ كو صرف تين بچوں كى تربيت كرنے كا اجرثواب حاصل ہوگا.
ليكن اگر آپ كے دس بچے ہوں تو آپ كو دس بچوں كى تربيت كرنے كا اجروثواب حاصل ہوگا، اور پھر آپ كو يہ بھى علم نہيں كہ ہوسكتا ہے اللہ تعالى ان دس ميں سے علماء اور مجاہدين بنا دے جو امت مسلمہ كو فائدہ ديں، اور آپ كے ليے يہ نيكى و احسان كا باعث بنےگى.
اس ليے آپ اولاد زيادہ پيدا كريں، اولاد زيادہ پيدا كريں اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے مال و دولت اور روزى ميں بھى اضافہ فرمائےگا ” انتہى
ماخوذ از:
فتاوى نور على الدرب
اللہ سبحانہ و تعالى ہميں اور آپ كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جن سے وہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند كرتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات